اہل تشیع کے خلاف منفی تشہیری مہم کے برعکس، ہمارا عقیدہ ہے کہ جو قرآن آج ہمارے وار دنیا کے تمام مسلمانوں کے پاس ہے، عیناً وہی قرآن ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر اللہ تعالی کی جانب سے نازل ہوا تھا؛ اور حتی کہ اس میں ایک لفظ کا اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی ایک حرف اس میں سے کم ہوا ہے۔
ہماری متعدد کتب تفسیر، اصول فقہ وغیرہ میں یہ شیعہ اعتقاد ثبت و ضبط ہوا ہے اور متعدد عقلی اور نقلی ثبوتوں کے ذریعے اس کا اثبات ہوا ہے۔
تمام شیعہ اور سنی علماء کے اس اجماع پر ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا ہے اور علمائے فریقین کی مطلق اکثریت کی رائے ہے کہ قرآن مجید میں ایک حرف کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔
فریقین کے محدود افراد کا خیال ہے کہ قرآن سے بعض چیزیں کم کردی گئی ہیں لیکن مُسَلّمہ دانشوروں میں کسی نے بھی ان لوگوں کی آراء کی جانبداری نہیں کی ہے۔
فریقین کی دو کتابیں
تحریف کے قائل مؤلفین کی کتب میں سے ایک مصر کے مشہور عالم دین"ابن الخطیب المصری" کی کتاب "الفرقان فی تحریف القرآن" ہے۔ یہ کتاب 1948عیسوی (بمطابق 1367 ہجری) میں شائع ہوئی تا ہم الازہر کے علماء نے بر وقت اقدام کرکے اس کے نسخے جمع کرکے ختم کروادیئے لیکن اس کے بعض نسخے غیرقانونی طور پر بعض لوگوں کے ہاتھ لگے۔
اسی طرح ایک شیعہ عالم دین "محدث ميرزا حسين النوري الطبرسي" نے "فصل الخطاب فى تحريف كتاب ربّ الأرباب" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جو 1291 ہجری میں شائع ہوئی اور اشاعت کے ساتھ ہی حوزہ علمیۂ نجف کے بزرگ علماء نے اس کی حقانیت کا انکار کیا اور اس کو کلی طور پر مسترد کیا؛ اس کے نسخے بازار سے جمع کروائے اور اس کے بعد اس کی تردید میں کئی کتابیں لکھی گئیں۔
جن لوگوں نے فصل الخطاب کی تردید میں کتابیں لکھی ہیں:
1۔ بزرگ فقیہ مرحوم شیخ محمود بن ابی القاسم المعروف "معرب الطہرانی" (متوفی 1313 ہجری)، جنہوں نے "کشف الارتیاب في عدم تحريف الکتاب" لکھی۔
2۔ مرحوم علاّمه سيّد محمّد حسين شهرستانى (متوفّى 1315 ہجری) نے حاجی نوری کی کتاب "فصل الخطاب" کو رد کرتے ہوئے "حفظ الكتاب الشريف عن شبهة القول بالتحريف" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔
3۔ نجف اشرف کے عظیم محقق مرحوم علامہ بلاغی (متوفی 1352) نے اپنی تفسیر "آلاء الرحمن" میں ایک مکمل اور قابل اعتناء فصل "فصل الخطاب" کی تردید کے لئے مختص کی۔ (
4۔ ہم نے اپنی کتاب "انوار الاصول" میں عدم تحریف پر مفصل بحث کی ہے اور فصل الخطاب میں مندرجہ شبہات کا دندان شک جواب دیا گیا ہے۔
مرحوم حاجی میرزا حسین النوری گو کہ بہت بڑے عالم تھے لیکن علامہ بلاغی لکھتے ہیں کہ وہ ضعیف روایات کا سہارا لیا کرتے تھے تا ہم وہ فصل الخطاب کی اشاعت کے بعد اپنے اس کام سے نادم ہوگئے تھے جبکہ حوزہ علمیہ نجف کے تمام علماء نے فصل الخطاب کو ان کی واضح خطا قرار دیا تھا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ حاجی نوری کو فصل الخطاب کی اشاعت کے بعد ہر طرف سے اعتراض و تنقید کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ انہیں اپنے دفاع میں ایک رسالہ شائع کرنا پڑا اور اس رسالے میں لکھا: "میرا مقصد قرآن میں عدم تحریف کا اثبات کی کوشش کی تھی لیکن میری تعبیرات و عبارات سے غلط تاثر لیا گیا۔
ان واضح حقائق کے باوجود کیا حاجی نوری کی کتاب کو پھر بھی شیعہ اعتقاد سمجھنا چاہئے؟
بہرحال بعض متعصب وہابی (غیر وہابی) مولوی صاحبان شیخ نوری کی کتاب "فصل الخطاب" کو دستاویز قرار دے کر اصرار کررہے ہیں کہ تحریف قرآن کا عقیدہ شیعہ عقیدہ ہے؛ حالانکہ:
1۔ اگر ایک کتاب کی تالیف شیعہ اعتقاد کی دلیل قرار پائے تو عقیدہ تحریف سنی علماء سے بھی منسوب کیا جاسکتا ہے اور وہ یوں کہ ابن الخطیب مصری نے "الفرقان فی تحریف القرآن" لکھی ہے اور اگر الازہر کے علماء کی طرف سے اس کتاب کی مخالفت اور اس سے بیزاری کے اعلان کو تحریف قرآن سے انکار، سمجھا جاتا ہے تو یقیناً میرزا نوری کی کتاب سے علمائے نجف کی بیزاری سے بھی یہی مطلب لیا جاسکتا ہے۔
2۔ "القرطبی" اور "درالمنثور" جیسی مشہور سنی تفاسیر میں حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ
سورہ احزاب دو سو آیتوں پر مشتمل تھی جن میں سے 72 آیتیں ہی باقی رہ سکی ہیں"۔
اس سے بڑھ کر صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بھی ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جن سے تحریف قرآن کا عقیدہ ظاہر ہوتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود ہم ہرگز اپنے آپ کو اس بات کا مجاز نہیں سمجھتے کہ ایک مؤلف یا چند ضعیف روایات کی بنا پر اہل سنت کو تحریف قرآن کا ملزم ٹہرائیں اور ہم ان سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ ایک کتاب یا بعض ضعیف روایات کی بنا پر ـ جن سے تمام شیعہ اکابرین نے بیزاری کا اعلان کیا ہے ـ اہل تشیع پر عقیدہ تحریف کا الزام نہ لگائیں۔
3۔ فصل الخطاب میں حاجی نوری نے اپنی روایات تین راویوں سے نقل کی ہیں جو یا تو "فاسد المذہب" ہیں یا جھوٹے ہیں یا پھر مجہول الحال ہیں:
٭ احمد بن محمّد السيارى، فاسد المذہب،
٭ على بن احمد كوفى، كذّاب اور
٭ أبى الجارود، مجہول يا مردود۔
فرقہ وارانہ عداوت کی خاطر اسلام کی جڑوں پر کلہاڑی نہ چلاؤ۔
4۔ جن لوگوں کا اصرار ہے کہ اہل تشیع پر ہر حال میں تحریف کی نسبت دینی چاہئے وہ درحقیقت اسلام کی جڑوں پر کلہاڑا چلا رہے ہیں؛ کیونکہ اجنبی بھی بھی ان ہی الزامات کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ "قرآن مجید کی عدم تحریف مسلمانوں کے درمیان تسلیم شدہ امر نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کے عقیدے کے مطابق قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔
عدم تحریف کی عقلی اور نقلی دلائل
5۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ متعدد عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں جن سے عدم تحریف ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف سے قرآن خود فرماتا ہے کہ:
"إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ"۔
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اور سورہ فصلت (حم سجدہ) میں ارشاد ہوتا ہے:
"وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ * لاَ يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلاَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيم حَمِيد"۔
ترجمہ: وہ یقینا ایک باعزت کتاب ہے۔ ٭ باطل کا اس کے پاس گزر نہیں، نہ اس کے سامنے سے اور نہ ا سکے پس پشت سے۔
چنانچہ یہ ایسی کتاب ہے جس کی حفاظت کا بیڑا خود خداوند قادر متعال نے اٹھایا ہے؛ تو کیا اس کے باوجود کوئی شخص اس کی تحریف کے لئے دست درازی کرسکتا ہے؟۔
دوسری طرف سے قرآن ایک متروک اور بھولی بسری کتاب نہ تھی اور نہ ہے، کہ کوئی شخص اس میں سے کوئی چیز کم کرسکے یا کسی چیز کا اضافہ کرسکے۔
کاتبان وحی (كُتّاب وحي)، جن کی تعداد 14 سے 400 تک بیان کی گئی ہے، قرآنی آیات کو نازل ہوتے ہی ثبت و ضبط کیا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد میں سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے جو آیات قرآنی کو نازل ہوتے ہی حفظ کرلیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں قرائت قرآن اہم ترین عبادات میں سے گردانی جاتی تھی اور تلاوت و قرائت شب و روز جاری رہتی تھی۔
علاوہ ازیں قرآن، اسلام کا آئین اور مسلمانوں کی روزمرہ زندگی کا قانون سمجھا جاتا تھا اور ان کی زندگی کے ہر پہلو میں موجود رہتا تھا چنانچہ عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ اس قسم کی کتاب میں تحریف اور کمی یا زیادتی محال ہے۔
ائمۂ معصومین علیہم السلام سے منقولہ روایات بھی قرآن کی اصالت، تمامیت و کاملیت اور عدم تحریف پر تاکید کرتی ہیں:
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:"و َ أَنزَلَ عَلَيْكُمُ الْكِتَابَ تِبْي تِبياناً لِكُلِّ شَيْءٍ. َ عَمَّرَ فِيكُمْ نَبِيَّهُ اءَزْمَانا حَتَّى اءَكْمَلَ لَهُ وَ لَكُمْ فِيمَا أَنزَلَ مِنْ كِتَابِهِ دِينَهُ الَّذِي رَضِيَ لِنَفْسِهِ"۔
ترجمہ: اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نازل فرمایا جو ہر چیز کو بیان کرتا ہے۔ خداوند متعال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو اتنی عمر عطا فرمائی کہ حتی اپنے دین کو قرآن کے ذریعے تمہارے لئے مکمل فرمایا۔
نہج البلاغہ کے بہت سے خطبات میں قرآن مجید پر بحث ہوئی ہے اور کہیں بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا جو تحریف قرآن پر دلالت کرتا ہو بلکہ امام علی علیہ السلام قرآن مجید پر بحث ہوئی ہے جو تحریف قرآن پر دلالت کرتا ہو۔ بلکہ ہمارے نویں امام حضرت محمد ابن علی التقی الجواد علیہ السلام اپنے شاگردسے مخاطب ہوکر حق کی سبیل سے لوگوں سے لوگوں کے انحراف کے بارے میں فرماتے ہیں: "وَ كَانَ مِنْ نَبْذِهِمُ الْكِتَابَ أَنْ أقَامُوا حُرُوفَهُ وَ حَرَّفُوا حُدُودَهُ"۔
ترجمہ: کچھ لوگوں نے قرآن کو ترک کردیا ہے اور وہ یوں کہ انھوں نے قرآن کے حروف اور اس کی عبارات کو محفوظ رکھا ہے مگر اس کے معانی اور مفاہیم میں تحریف کرچکے ہیں۔
اس حدیث اور اس طرح کی دوسری حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ الفاظ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی ہے اور بعض اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی مفادات کی بنا پر آیات قرآنی کے خلافِ حقیقت تفسیر یا توجیہ و تاویل کرتے ہیں۔
یہیں سے ایک نہایت اہم نکتہ نمایاں ہوتا ہے وہ یہ کہ اگر کہیں تحریف کی بات ہوئی بھی ہے تو اس سے مراد "معنوی تحریف" اور قرآن کی تفسیر بالرائے ہے اور اس سے مطلب الفاظ اور عبارات میں تحریف ہرگز نہیں ہے۔
دوسری جانب سے ہم ائمۂ معصومین علیہم السلام کی موثق روایات کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ: روایات کی درستی یا نادرستی سمجھنے کے لئے ـ خاص طور پر جب ان میں تضاد پایا جاتا ہو ـ ان کا قرآن مجید سے موازنہ کریں۔ جو کچھ قرآن کے مطابق ہو وہ صحیح ہے اور اس پر عمل کرو اور جو کچھ قرآن کے خلاف ہو اس کو ترک کرو۔
"اعرِضُوهُمَا عَلَى كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَمَا وَافَقَ كِتَابَ اللهِ فَخُذُوهُ وَ مَا خَالَفَ كِتَابَ اللهِ فَرُدُّوهُ"۔
ترجمہ: دو متعارض اور متضاد روایات کا قرآن سے موازنہ کرو جو موافق قرآن ہو اس کو اخذ کرو اور جو مخالف قرآن ہو اس کو ترک کرو۔
یہ حدیث بذات خود تحریف قرآن کی نفی کرتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو تو ائمۂ طاہرین علیہم السلام قرآن کو حق و ناحق اور صحیح و ناصحیح کی تشخیص کا معیار قرار نہ دیتے۔
ان سب روایات سے زیادہ اہم حدیث ثقلین ہے جو نہایت معروف و مشہور ہے اور شیعہ اور سنی مآخذ میں کثرت سے نقل ہوئی ہے۔
روات اور محدثین کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
"إِنّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثِّقْلَيْنِ كِتَابَ اللهِ وَ عِتْرَتي أَهْلَ بَيْتي مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا"۔
ترجمہ: میں دو گرانقدر چیزیں تمہارے درمیان یادگار چھوڑے جارہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت "یعنی اہل بیت" اگر تم ان سے تمسک کروگے، ان کا دامن تھامے رہوگے اور ان سے وابستہ رہوگے تو ہرگز گمراہ نے ہوگے۔
یہ پر معنی اور پر مغز حدیث بخوبی ثابت کرتی ہے کہ قرآن اہل بیت علیہم السلام کی معیت روز قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا اطمینان بخش سرچشمہ ہے۔
اگر قرآن مجید تحریف سے دوچار ہوچکا ہوتا تو اطمینان بخش پناہگاہ کیونکر ہوسکتا تھا! اور لوگوں کو گمراہی اور ضلالت سے کیونکر بچا سکتا تھا؟!
کوئی بھی مذہب ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر قائم نہیں ہوتا اور ہم کبھی بھی ابن الخطیب مصری کی کتاب "الفرقان في تحريف القرآن" اور تحریف قرآن پر دلالت کرنے والی تمہاری ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر تم پر تحریف قرآن الزام نہیں لگاتے اور ہم ہرگز قرآن مجید کو تخریبکارانہ تحریف کا مسئلہ اتنا اچھالا کرو؛ اسلام، مسلمین اور قرآن پر ستم نہ کرو، مذہبی تعصبات کی بنا پر تحریف کا افسانہ دہرا دہرا کر عالمی مسلمانوں کے بنیادی سرمائے ـ قرآن کریم ـ کا اعتبار نہ گھٹاؤ؛ دشمن کو دستاویز فراہم نہ کرو۔ تم اگر اس طرح اہل تشیع اور مکتب اہل بیت علیہم السلام سے انتقام لینا چاہتے ہو تو جان لو کہ تم [شاید] نادانستہ طور پر اسلام کی اساس منہدم اور اس کی بنیاد کو متزلزل کررہے ہو۔ کیونکہ تم ہی دنیا والوں سے کہہ رہے ہو کہ مسلمانوں کا ایک عظیم گروہ قرآن کی تحریف کا قائل ہے؛ یہ قرآن عظیم پر ظلم عظیم ہے۔
آخر میں کہ کوئی بھی شیعہ یا سنی محقق تحریف قرآن کا قائل نہیں ہے بلکہ جو قرآن آج ہمارے ہاتھوں میں ہے عیناً وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل ہوا تھا۔ شیعہ اور سنی قرآن کی اپنی ہی نصّ کے مطابق خدا نے قرآن کی ہر قسم کی تغییر، تحریف اور زوال و نقصان سے حفاظت کی ضمانت دیتی ہے گو کہ فریقین میں سے کچھ بے خبر اور ناآگاہ متعصبین ایک دوسرے کو تحریف قرآن کا ملزم ٹہراتے ہیں اور اس مسئلے کو اچھال رہے ہیں۔
اترك تعليق