معاویہ نے لوگوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور اپنے جابرانہ اقتدار سے انہیں خوفزدہ کر دیا۔ جس طرح اس نے ان وحشیانہ ہتھکنڈوں کے لیے گماشتوں اور جلادوں کو تیار کیا، اسی طرح ان جرائم کے جواز کے لیے اموی شریعت کے فقہا میں سے ابلیس کے سپاہیوں کا ایک لشکر بھی تیار کیا، جیسے: کعب الاحبار، سمرہ بن جندب اور ابو ہریرہ وغیرہ، تاکہ وہ اس کے اس نعرے کی تکرار کریں کہ: (وہ جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا کرتا ہے)۔ اور اس بنیاد پر، اس کا ہر عمل، چاہے وہ کتنا ہی وحشیانہ اور گھٹیا کیوں نہ ہو، اسی (الہی) انتخاب سے ماخوذ ہے..! اس طرح معاویہ نے اس آیت شریفہ کے مفہوم کے ساتھ کھلواڑ کیا، اور بغیر کسی دینی خوف کے اس میں تحریف کی۔ وعاظ السلاطین (درباری ملاؤں) نے اس نعرے سے نظریات گھڑے، فلسفے بگھارے اور "مذہبِ جبریہ" ایجاد کیا، جو وہ جراثیم ثابت ہوا جس سے اسلامی جسم ایک طویل عرصے تک مبتلا رہا، اور اس پرانے مرض کی باقیات اب بھی اسلامی ممالک میں اپنا وائرس پھیلا رہی ہیں۔
میں نہیں جانتا کہ یہ کیسی ریاست ہے جو تمام انسانی اقدار کو کچل کر بنائی گئی ہو اور جس کے معمار قاتل، مجرم اور موقع پرست ہوں؟ پھر یہ کیسی عمارت ہے جو خود امت کے اکابرین کی مشتعل بغاوتوں اور احتجاجی چیخوں سے لرز اٹھی، جن کے ہراول دستے میں امت کے نبی کے فرزند حسینؑ اور ان کے شرعی خلیفہ شامل تھے؟ یہاں تک کہ یہ ریاست ان کے پاک لہو سے زمین بوس ہو گئی، اور یزید تاریخ کے کوڑے دان میں جا گرا، تاکہ اس کا بیٹا (معاویہ اصغر) کھلے عام اپنی براءت اور اس فاسد ریاست سے علیحدگی کا اعلان کرے جس نے لوگوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیے تھے، اور پھر مروان اسے قتل کر دے اور یوں خلافت سفیانیوں سے مروانیوں کی طرف منتقل ہو جائے، جن کی حکومت کی عمر نصف صدی سے زیادہ نہ بڑھ سکی یہاں تک کہ وہ عباسیوں کے ہاتھوں ڈھے گئی۔
یہ وہ سب کچھ ہے جس کے لیے معاویہ نے کام کیا، یعنی معصوم جانوں کا ضیاع، مقدسات کی پامالی، اقدار کا کچلا جانا، وعدوں کی خلاف ورزی وغیرہ... اور اپنی ریاست کے قیام اور پھر استبدادی پالیسی اپنانے میں اس کے بہت سے مہلک گناہ شامل ہیں۔
عہدوں اور مالِ غنیمت کے لیے ہونے والی اس شدید کشمکش میں، مفاد دین پر غالب آ گیا اور اخلاقیات گراوٹ کی آخری حدوں تک پہنچ گئیں، چنانچہ نمازوں میں اور منبروں پر علی بن ابی طالبؑ پر سب و شتم کرنا ایک ایسی سنت بن گئی جس کی پیروی لازمی تھی!! اور حجر بن عدی الکندی اور ان کے ساتھیوں جیسے جلیل القدر صحابہ کا قتل، اور عمرو بن الحمق الخزاعی کا قتل اور ان کا سر نیزے پر بلند کرنا (جو اسلام میں بلند کیا جانے والا پہلا سر تھا)، پھر اسے ان کی اہلیہ آمنہ بنت شرید کی گود میں رکھنا جبکہ وہ شام میں معاویہ کی قید میں تھیں، یہ سب شریعت کا نفاذ قرار پایا! کیونکہ ان لوگوں نے علیؑ پر سب و شتم کرنے پر اعتراض کر کے خلیفہ کی اطاعت سے خروج کیا تھا!!!! یہ ہے وہ بھیانک اموی اسلام جس نے امت مسلمہ کو تباہی سے دوچار کیا، اور اس کی تحریف اور کجی کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔
