حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی یتیموں پر شفقت

تاریخ کے اوراق کئی ایسے بہادر و شجاع لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جن کی شجاعت و قساوت کا بول بالا تھا مگر اس کے ساتھ ہی ایسے بہادر رحمت و علم و حکمت و انسانیت سے عاری تھے ۔ اسی طرح مجسم حکمت و علم شجاعت جیسی طبیعت سے کوسوں دور تھے ۔

مگر حضرت علی علیہ السلام واحد ایسی شخصیت ہیں کہ جن میں تمام زمانوں کے عباد اللہ کے لئے رحمت اور محبت کے اعلی مصداق ہیں حتی کہ تاریخ بشریت کی عادل ترین شخصیت کا لقب پایا ۔

حضرت علی علیہ السلام کے رحم و فضل و کرامت کے بیان میں حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی کافی احادیث شاھد ہیں جن میں سے  يا علي أنا وأنت أبوا هذه الامة

اے علی ! آپ اور میں اس امت کے باپ ہیں

اور پھر فرمایا :

لو أن الغياض أقلام والبحر مداد، والجن حساب والأنس كتًاب ما أحصوا فضائل علي بن أبي طالب (عليه السلام)

اگر درخت قلم بن جائیں اور بحر سیاہی قرار پائیں اور جن وانس (فضائل علیہ السلام کے )کاتب کی مانند ہو جائیں تب بھی وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل کا احصاء نہیں کرسکتے

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت میں معانی انسانیت آپ علیہ السلام کا یتیموں کے ساتھ نیک سلوک کی شکل میں نظر آتا ہے اور کیوں نہ نظر آئے کہ آپ علیہ السلام ہی بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ امت کا باپ ہیں

آپ علیہ السلام کے یتیموں پر رحم کے چند واقعات مندرجہ ذیل ہیں ۔

1-

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ امام علی علیہ السلام رات کو کوفہ کی گلیوں میں فقراء اور یتامیٰ کی احوال پرسی کے لئے چل رہے تھے کہ بچوں کے رونے کی آواز سنی ۔ پس آپ گھر کے قریب گئے اور دروازہ بجایا ۔ بچوں کی ماں نے دروازہ کھولا ۔ آپ علیہ السلام نے بچوں کے رونے کی وجہ پوچھی ۔

عورت نے جواب دیا بچھے بھوکے ہیں اور بھوک کے سبب رورہے ہیں

امام علیہ السلام نے فرمایا : کیوں بھوکے ہیں؟

عورت نے جواب دیا : ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے ۔

امام علیہ السلام نے تعجبا صاحب خانہ کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ کسی معرکہ میں قتل ہوگیا ہے ۔ امام علیہ السلام نے دیکھا کہ چولہے پر کچھ ابل رہا ہے سوال کیا تو عورت نے کہا کہ اس میں پانی ڈال رکھا ہے اور بچوں کو تسلی دے رہی ہوں تاکہ بھوک کو بھول کر سو جائیں

امام علیہ السلام نے فرمایا : اے اللہ کی کنیز! انتظار کرو میں ابھی آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر گھر تشریف لائے اور گھی، آٹا اور کھجوروں کا ایک تھیلا اٹھانے لگے تو قنبر نے کہا :میرے آقا اپنی جگہ مجھے اٹھانے دیں ۔

پس امام علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں اس کو اٹھانے کا تم سے زیادہ زمہ دار ہوں

اور اپنی پشت پر وزن کو اٹھایا اور اس گھر کی طرف چل دئے ۔ دروازے پر دستک دی تو اس بیوہ نے دروازہ کھولا آپ علیہ السلام اسے فرمایا : اے کنیز خدا یاتو تم کھانا پکاؤاور میں بچوں کوتسلی دیتا ہوں یا میں کھانا پکاتا ہوں اور تم بچوں  کو تسلی دو ۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

یتیموں اور کنیزوں پر ظلم عذاب الہی کا موجب اور نعماات الہی کے سلب کا موجب ہے

آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ اللہ کے یتیموں کی آہ سے بچو کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سے سنا ہے کہ جس نے یتیم کی پرورش کی یہاں تک اس کی تمام ضروریات کو پورا کیا اللہ تعالی اس پر جنت واجب کردیتا ہے بالکل اسی طرح جب کوئی مال یتیم پر ناجائز تصرف کرتا ہے جہنم واجب ہوجاتی ہے ۔