صفات مؤمن از لسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ مومن کامل میں ایک سو تین صفتیں ہوتی ہیں اور یہ تمام صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں صفات فعلی،صفات عملی،صفات نیتی اور صفات ظاہری و باطنی۔ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول وہ ایک سو تین صفات کیا ہیں؟حضرت نے فرمایا:”اے علی مومن کے صفات یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ فکر کرتا ہے اور علی الاعلان الله کا ذکر کرتا ہے،اس کا علم ،حوصلہ وتحمل زیادہ ہوتا ہے اور دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتا ہے “

  حدیث کی شرح :

یہ حدیث حقیقت میں اسلامی اخلاق کا ایک مکمل دورہ ہے ،جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ ، حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے بیان فرمارہے ہیں ۔اس کا خلاصہ پانچ حصوں میں ہوتا ہے جو اس طرح ہیں:فعل،عمل،نیت،ظاہر اور باطن۔

فعل و عمل میں کیا فرق ہے؟

فعل ایک گزرنے والی چیز ہے،جس کو انسان کبھی کبھی انجام دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عمل ہے جس میں استمرار پایا جاتاہے یعنی جو کام کبھی کبھی انجام دیا جائے وہ فعل کہلاتا ہے اور جو کام مسلسل انجام دیا جائے وہ عمل کہلاتاہے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں :  

  مومن کی پہلی صفت ” جوال الفکر“ ہے

 

 یعنی مومن کی فکر کبھی جامد وراکد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ فکر کرتا رہتا ہے اور نئے مقامات پر پہونچتا رہتا ہے۔ وہ تھوڑے سے علم سے قانع نہیں ہوتا ۔یہاں پر حضرت نے مومن کی پہلی صفت فکر کو قراردیا ہے جس سے فکر کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے ۔مومن کا سب سے بہترین عمل تفکر ہے۔

مومن کی دوسری صفت”جوہری الذکر“ہے:

بعض نسخوں میں” جہوری الذکر “بھی آیاہے ۔ہماری نظر میں دونوں ذکر کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہے۔ذکر کو ظاہری طور پر انجام دنیا قصد قربت کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام میں ذکر جلی اور ذکر خفی دونوں   موجودہیں۔صدقہ اور زکوٰة مخفی بھی ہے اور ظاہری بھی،ان میں سے ہرایک کااپنا خاص فائدہ ہے جہاں پر ظاہری ہے وہاں تبلیغ ہے اور جہاں پر مخفی ہے وہ اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے ۔

مومن کی تیسری صفت” کثیراً علمہ“ ہے ۔

یعنی مومن کے پاس علم زیاد ہوتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ثواب،عقل اور علم کے مطابق ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے مقابل دوسرا انسان سو رکعت نماز پڑھے مگر ان دو رکعت کا ثواب اس سے زیاد ہو ۔واقعیت بھی یہی ہے کہ عباد ت کے لئے ضریب ہے اور عبادت کی اس ضریب کا نام علم وعقل ہے۔

مومن کی چوتھی صفت”عظیماً حلمہ“ ہے

 یعنی مومن کا علم جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کا حلم بھی اتنا ہی زیاد ہوتا ہے ۔ایک عالم انسان کو سماج میں مختلف لوگوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے اگر اس کے پاس حلم نہیں ہوگا تو مشکلات میں گھر جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ اقوام میں قوم لوط سے زیادہ خراب کوئی قوم نہیں ملتی اور ان کا عذاب بھی سب سے دردناک تھا فلما جاء امرنا جعلنا عٰلیہاسافلہا وامطرنا علیہا حجارة من سجیل منضود . اس طرح کہ ان کے شہر اوپر نیچے ہوگئے اور بعد میں ان کے او پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ان سب کے باوجود جب فرشتے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے، اور ان کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی جس سے وہ   خوش ہوگئے،بعدمیں قوم لوط کی شفاعت کی ۔

فلما ذہب عن ابراہیم الروع و جاتہ البشریٰ یجادلنا فی قوم لوط  ان ابراہیم لحلیم اواة منیب

 ایسی قوم کی شفاعت کے لئے انسان کو بہت زیادہ حلم کی ضرورت ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی ،حلم اور ان کے وسیع القلب ہونے کی نشانی ہے۔بس عالم کو چاہئے کہ اپنے حلم کو بڑھائے اور جہاں تک ہو سکے اصلاح کرے نہ یہ کہ اس کو چھوڑ دے۔

مومن کی پانچوین صفت”جمیل المنازعۃ“ہے

 یعنی اگرمومن کو کسی کے کوئی بحث یا بات چیت کرنی ہوتی ہے تو اس کو نرم لب و لہجہ میں انجام   دیتا ہے اورجنگ و جدال نہیں کرتا ۔