اسلام پہ شبیرکا احسان نہ ہوتا
بیٹی کے مقدر میں یہ زندان نہ ہوتا
اصغرکوجو مل جاتا اِک گھونٹ بھی پانی
معصومہ کو پانی کا ارمان نہ ہوتا
ہوتا نہ مقدر میں سفر کربلا کا
محمد کا مدینہ کبھی ویران نہ ہوتا
شبیر کے عابد کے بچا نہ پاتی زینب
ہمشیر کا خطبہ اگر بازار نہ ہوتا
بازار شام میں سجاد نہ جاتے
عابدکا نا چاک گریبان نہ ہوتا
تطہیر کی چادر جو زینب نہ لُٹاتی
احمد پہ نازل ہوا قرآن نہ ہوتا
جابر ہُجوم عام میں زہرا کی لاڈلی
اے کاش اسیری کا جو اعلان نہ ہوتا