واجب ہے تم پہ ذکر سنانا غدیر کا
مٙن کُنْتُ بن گیا ہے ترانہ غدیر کا
باغِ فدک بنا ہے بہانہ غدیر کا
دربار میں تھا ذکر سنانا غدیر کا
کیونکر پڑھوں نہ سورہِ رحٰمن بار بار
ملتا نہیں ہر اِک کو خزانہ غدیر کا
اکبر تِری اذانِ ولایت کی گونج پر
میدان پڑھ رہا تھا ترانہ غدیر کا
سلمان بولے دیکھ کے چہروں کو شیخ کے
جاکر لگا ہدف پہ نشانہ غدیر کا
حج سے بھی جب نہ ہوسکے روشن سیاہ دل
لازم ہوا چراغ جلانا غدیر کا
جھولا جھلا کے کہتی تھیں بےشیر سے ربابؑ
ہر حال میں ہے ساتھ نبھانا غدیر کا
دربار جاکے اُن کو مٹا آئی ہیں بتولؑ
جو چاہتے تھے ذکر مٹانا غدیر کا
ڈھلتی نہ تھی جو اُس شبِ عاشور کی قسم
ہوگا کبھی نہ ختم زمانہ غدیر کا
میثم وبا کے دور میں کتنا حسین ہے
لوگوں کے دل سے دل کو ملانا غدیر کا