مباہلہ: قرآنی اور حدیثی نقطہ نظر سے ایک تفصیلی جائزہ

مقدمہ

مباہلہ اسلامی تاریخ کا ایک غیر معمولی اور فیصلہ کن واقعہ ہے جو حق و باطل کے درمیان الٰہی حجت کے طور پر پیش آیا۔ یہ واقعہ نہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کا ایک عظیم معجزہ ہے بلکہ اہل بیت علیہم السلام کی بے مثال عظمت، طہارت اور مقام کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جب الٰہی سچائی کو انسانی دلائل کی حدود سے بالا تر ہو کر براہ راست آسمانی فیصلے کے ذریعے ثابت کیا گیا۔

مباہلہ: لغوی اور اصطلاحی تعریف

مباہلہ ایک ایسا عمل ہے جو اسلامی تنازعات کے حل میں ایک آخری حربے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے لغوی اور اصطلاحی معنی اس کی گہرائی اور اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔

مباہلہ کے لغوی معنی:

لغوی طور پر، "مباہلہ" کا لفظ عربی مادہ "بہل" سے ماخوذ ہے، جس کے بنیادی معنی "آزاد کرنے" اور "کسی چیز سے قید و بند اٹھانے" کے ہیں۔ اسی بنیاد پر، جب کسی جانور کو آزاد چھوڑا جاتا ہے تاکہ اس کا نوزاد بچہ آزادی سے دودھ پی سکے، تو اسے "باھل" کہا جاتا ہے۔ دعا میں "ابتہال" کا مطلب تضرع کرنا اور اپنے معاملے کو خداوند متعال کے سپرد کر دینا ہے۔

 

اس لفظ کے دیگر لغوی معنی میں "لعنت کرنا" یا "ایک دوسرے پر بددعا کرنا" بھی شامل ہے۔ "البہل" کا مطلب "لعنت" یا "پانی کی کمی" بھی ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ "جھوٹ بولنے والے سے رحمت اٹھا لینا" کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

مباہلہ کے اصطلاحی معنی (اسلامی نقطہ نظر):

اسلامی اصطلاح میں، مباہلہ ایک ایسا عمل ہے جب دو فریقوں کے درمیان کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں شدید اختلاف و نزاع پیدا ہو جائے اور دلائل کے ذریعے اس کا کوئی حل نظر نہ آتا ہو۔ ایسی صورت حال میں، دونوں فریق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کرتے ہیں کہ "یا اللہ! ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اس پر اپنی لعنت فرما۔" یہ بنیادی طور پر ایک مشروط لعنت کا حلف ہے، جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ "اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر لعنت ہو۔" اسلامی فقہ میں، مباہلہ تنازعات کو حل کرنے کا ایک قانونی اور آخری حربہ سمجھا جاتا ہے۔

"آزاد کرنے" اور "لعنت کرنے" کے یہ دوہرے معنی مباہلہ کی گہری اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ جب کوئی فریق اللہ تعالیٰ کی لعنت کو طلب کرتا ہے، تو وہ درحقیقت اس معاملے کو الٰہی فیصلے کے لیے "آزاد" کر دیتا ہے، اور خود کو صرف انسانی دلائل کے ذریعے سچائی ثابت کرنے کے بوجھ سے "آزاد" کر لیتا ہے۔ یہ عمل اللہ کے انصاف پر مکمل بھروسے اور اس کے سامنے حتمی سپردگی کا مظہر ہے۔ یہ مباہلہ کو محض ایک بددعا سے کہیں زیادہ ایک گہرے روحانی چیلنج میں بدل دیتا ہے۔ یہ عمل اس کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے؛ یہ کوئی معمولی بددعا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ایک سنجیدہ اپیل ہے کہ وہ سچائی کو ظاہر کرے اور جھوٹ کو سزا دے، اس طرح انسانیت کو شک و شبہات سے "آزاد" کرے۔

آیت مباہلہ: مکمل متن اور ترجمہ

مباہلہ کا واقعہ قرآن کریم کی ایک مخصوص آیت میں بیان کیا گیا ہے جسے "آیت مباہلہ" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آیت سورہ آل عمران کی آیت 61 ہے۔

قرآنی متن:

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيہِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ [سورہ آل عمران، آیت 61]

اردو ترجمہ:

"چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسٰی) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمھارے بیٹوں اور اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں اور اپنے نفسوں کو اور تمھارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔"

اس آیت میں "أَبْنَاءَنَا" (ہمارے بیٹوں)، "نِسَاءَنَا" (ہماری عورتوں)، اور "أَنفُسَنَا" (ہمارے نفسوں) جیسے مخصوص الفاظ کا استعمال نہایت اہم ہے۔ یہ الٰہی حکم کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کو ایسے سنگین چیلنج کے لیے ساتھ لائیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ افراد غیر معمولی پاکیزگی، سچائی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی تعلق کے حامل تھے، جس کی وجہ سے وہ سچائی کی نمائندگی کے لیے جھوٹ کے خلاف سب سے زیادہ موزوں تھے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی موجودگی الٰہی فیصلے کی شدت میں اضافہ کرے گی، جس سے جھوٹ بولنے والوں کے لیے لعنت زیادہ مؤثر اور ناگزیر ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کو ان مخصوص افراد کو لانے کا حکم دیا، جو اسلام میں ان کے منفرد مقام اور کردار کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کا ذاتی انتخاب نہیں تھا بلکہ ایک الٰہی ہدایت تھی، جو سچائی کے ظہور کے لیے ان کے مقام کو ایک الٰہی ضرورت تک بلند کرتی ہے اور اسلامی قیادت میں ان کے آئندہ کردار کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی عنصر فراہم کرتی ہے۔

واقعہ مباہلہ کا پس منظر اور شان نزول

واقعہ مباہلہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رسالت کی صداقت اور اہل بیت علیہم السلام کے مقام کو ثابت کرتا ہے۔

نجران کے عیسائیوں کا وفد:

شیعہ اور سنی مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ آیت مباہلہ کا نزول نجران کے عیسائیوں کے وفد کے ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلی کے مناظرے کے پس منظر میں ہوا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے نجران کے پادری کو ایک خط لکھا جس میں وہاں کے باشندوں کو اسلام قبول کرنے، یا جزیہ ادا کرنے، یا جنگ کے لیے تیار ہونے کی دعوت دی گئی۔ نجران کے عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں یا تثلیث کے تین اقانیم میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے میں انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا۔ قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے تشبیہ دے کر ان کے بے باپ ہونے کی دلیل کو رد کیا (سورہ آل عمران 3:59)، لیکن عیسائی اس پر مطمئن نہیں ہوئے۔

مباہلہ کی دعوت:

جب دلائل سے یہ اختلاف ختم ہوتا نظر نہ آیا اور عیسائیوں نے اپنی کٹ حجتی جاری رکھی، تو اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں مباہلہ کا ذکر تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کو انہیں مباہلے کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا براہ راست حکم تھا تاکہ اس دلیل کو اس طریقے سے ختم کیا جائے جو حق و باطل میں سب سے مؤثر طریقے سے فرق کر سکے۔

عیسائیوں کا مشورہ اور انصراف:

عیسائیوں نے مباہلہ کی دعوت سن کر سوچنے کا موقع مانگا۔ ان کے ایک عقلمند بوڑھے (عاقب) نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر یہ نبی ہوا اور تم نے مباہلہ کیا تو تمہاری نسلوں کی بھی خیر نہ ہوگی، بہتر ہے صلح کر لو۔

 

جب عیسائیوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے سب سے پیاروں، اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا، ان کے شوہر امام علی علیہ السلام، اور ان کے دو بیٹوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو ہمراہ لائے ہیں، تو وہ مکمل طور پر حیران رہ گئے۔ عیسائی قبیلے کے سربراہ بشپ کے الفاظ قابل ذکر ہیں: "عیسیٰ کی قسم! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ آسمانوں کی طرف رخ کر کے دعا کریں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں۔ اے ناصرہ کے عیسیٰ پر ایمان لانے والو، میں تمہیں سچ کہتا ہوں، اگر تم محمد کے ساتھ کسی معاہدے پر نہ پہنچے تو وہ، اور ان کے ہمراہ خدائی روحیں، اگر خدا کی لعنت طلب کریں تو تمہارا وجود ہمیشہ کے لیے مٹا دیں گے۔" اس کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور مسلمانوں کی حکومت کے تحت جزیہ ادا کرنے پر راضی ہو گئے، یوں مسلمان فاتح ٹھہرے۔

عیسائی وفد کا ردعمل اہل بیت علیہم السلام کی روحانی عظمت کا ایک طاقتور ثبوت ہے۔ ان کے دلوں میں یہ تبدیلی براہ راست پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کو دیکھ کر آئی۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ان افراد کی روحانیت، پاکیزگی اور الٰہی تعلق اس قدر واضح اور غالب تھا کہ مخالفین بھی ان کی بے پناہ طاقت اور الٰہی انتقام کی یقین دہانی کو پہچان گئے۔ یہ صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کی موجودگی نہیں تھی، بلکہ وہ کون تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے ساتھ لائے تھے، جس نے ان کے خوف اور بعد میں ہتھیار ڈالنے کا سبب بنا۔ یہ واقعہ اہل بیت علیہم السلام کے منفرد روحانی مقام کو نہ صرف مسلم کمیونٹی کے اندر بلکہ ان کے مخالفین کی نظروں میں بھی ثابت کرتا ہے۔ یہ ان کی الٰہی حفاظت اور جس سچائی کی وہ نمائندگی کرتے تھے اس کا ایک تاریخی ثبوت (حجت) ہے، جس سے یہ واقعہ الٰہی طاقت کا ایک واضح مظہر اور بغیر کسی تصادم کے اسلام کے لیے ایک فیصلہ کن فتح بن گیا۔

واقعہ مباہلہ میں اہل بیت (ع) کی شمولیت

واقعہ مباہلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کی شرکت اس واقعے کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے اور ان کے مقام کی بنیادی دلیل ہے۔

پنجتن پاک کی شرکت اور ان کی فضیلت:

شیعہ نقطہ نظر کے مطابق، آیت مباہلہ میں استعمال ہونے والی قرآنی اصطلاحات کی تفسیر نہایت واضح ہے۔ "أَبْنَاءَنَا" (ہمارے بیٹوں) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں، "نِسَاءَنَا" (ہماری عورتیں) سے مراد سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں، اور "أَنفُسَنَا" (ہمارے نفسوں اور ہماری جانوں) سے مراد امام علی علیہ السلام ہیں۔ یہ چار افراد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ مل کر "پنجتن پاک"، "آل عبا" یا "اصحاب کساء" کو تشکیل دیتے ہیں۔ امام رضا علیہ السلام اس آیت کو قرآن کریم میں حضرت علی علیہ السلام کی سب سے بڑی فضیلت قرار دیتے ہیں۔

"أَنفُسَنَا" کا امام علی علیہ السلام سے مراد ہونا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ ان کی بے مثال روحانی اور وجودی قربت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ان کی غیر معمولی پاکیزگی، سچائی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ روحانی یگانگت کی الٰہی پہچان کو ظاہر کرتا ہے، جس سے وہ اسلام کی سچائی کی نمائندگی کے لیے ایسے نازک لمحے میں سب سے زیادہ اہل قرار پاتے۔ یہ شیعہ عقیدے میں امامت اور اہل بیت علیہم السلام کی عصمت (معصومیت) کے لیے ایک بنیادی کلامی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس حتمی سچائی کے امتحان کے لیے الٰہی حکم سے ان کا انتخاب، ان کی منفرد روحانی اتھارٹی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلم کمیونٹی کے لیے رہنما اور نمونہ کے طور پر ان کے کردار کو تقویت دیتا ہے۔

اہل سنت کتب سے تائید:

اہل سنت کے مفسرین جیسے فخر الدین رازی اور بیضاوی نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ "أَبْنَاءَنَا" سے مراد حسن اور حسین، "نِسَاءَنَا" سے مراد فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، اور "أَنفُسَنَا" سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ مسند احمد میں بھی یہ واقعہ موجود ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ اگر نصرانی مباہلے کے لیے نکلتے تو لوٹ کر اپنے مالوں اور بال بچوں کو نہ پاتے۔

اہل سنت کے مستند ذرائع سے یہ قوی تائید شیعہ استدلال کے لیے ایک اہم نقطہ ہے۔ بڑے سنی علماء اور حدیث کی کتب مباہلہ میں پنجتن کی شرکت اور ان کی شناخت کی تصدیق کرتی ہیں۔ یہ اہل بیت علیہم السلام کے منفرد مقام کے لیے شیعہ استدلال کو نمایاں طور پر مضبوط کرتا ہے، کیونکہ یہ محض ایک فرقہ وارانہ دعویٰ نہیں بلکہ اسلامی طیف کے وسیع پیمانے پر قبول شدہ ذرائع سے تائید شدہ ہے۔ یہ اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت کو تنازعہ کے بجائے اتفاق کا نقطہ بناتا ہے، جس سے شیعہ تفسیر کو زیادہ وزن ملتا ہے۔ مباہلہ کے واقعہ کے بنیادی حقائق اور شرکاء (پنجتن) کی شناخت پر یہ بین الفرقہ وارانہ اتفاق، بین المذاہب مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت کے حوالے سے ایک مشترکہ بنیاد کو نمایاں کرتا ہے، چاہے کلامی مضمرات (جیسے امامت) کی تفسیر مختلف مکاتب فکر کے ذریعے مختلف طریقے سے کی جائے۔

اہل بیت (ع) کے مصادیق پر شیعہ نقطہ نظر:

شیعہ نقطہ نظر کے مطابق، آیت تطہیر میں "اہل بیت" سے مراد صرف پنجتن آل عبا (محمد، علی، فاطمہ، حسن، حسین) ہیں۔ اس کی ایک اہم لسانی دلیل یہ ہے کہ آیت میں مذکر جمع کی ضمیریں ("عنکم"، "یطہرکم") استعمال کی گئی ہیں۔ عربی گرامر کے اصول کے مطابق، اگر کسی گروہ میں ایک بھی مرد شامل ہو تو مذکر جمع کی ضمیر استعمال کی جاتی ہے۔ اگر اس گروہ میں صرف خواتین ہوتیں (جیسے صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کی ازواج)، تو مؤنث جمع کی ضمیریں ("عنکن"، "یطہرکن") استعمال کی جاتیں۔ مذکر ضمیروں کا استعمال، خاص طور پر جب آیت ازواج مطہرات کے ذکر کے سیاق و سباق میں آتی ہے، تو یہ مضبوطی سے مردوں (علی، حسن، حسین) کی شمولیت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور خاص طور پر پنجتن کو اس الٰہی پاکیزگی کے بنیادی وصول کنندگان کے طور پر نشان زد کرتا ہے۔ یہ لسانی درستگی مباہلہ میں ان کی خصوصی موجودگی سے بالکل ہم آہنگ ہے۔

یہ لسانی تجزیہ، مباہلہ کے واقعہ کے ساتھ مل کر، "اہل بیت" کے بارے میں شیعہ تفہیم کے لیے ایک مضبوط کلامی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ اس سے مراد صرف پنجتن ہیں۔ یہ ان کی عصمت (معصومیت) اور الٰہی پاکیزگی کے منفرد مقام کو تقویت دیتا ہے، جو امامت اور روحانی اتھارٹی کے بارے میں شیعہ عقیدے کے لیے بنیادی ہے، اور ان کے نقطہ نظر کو دیگر تفاسیر سے ممتاز کرتا ہے۔

عیسائیوں کا انصراف اور جزیہ کی قبولیت:

عیسائیوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اور اہل بیت علیہم السلام کی روحانی عظمت کو دیکھ کر مباہلہ سے انکار کر دیا اور جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اگر وہ مباہلے کے لیے تیار ہوتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کا نام و نشان بھی نہ پاتے۔ یہ واقعہ 24 ذی الحجہ سن 9 ہجری کو رونما ہوا۔

عیسائیوں کی پسپائی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اور اہل بیت علیہم السلام کی بے پناہ روحانی طاقت اور الٰہی حمایت کی ان کی پہچان کا براہ راست نتیجہ تھی۔ یہ ان کے اپنے جھوٹ اور اسلام کی سچائی کا ایک خاموش اعتراف تھا، جو بغیر کسی خونریزی کے حاصل ہوا، جس سے یہ الٰہی مداخلت کا ایک منفرد اور طاقتور مظاہرہ بن گیا۔

اسلام کی حقانیت اور اہل بیت (ع) کی عظمت کا اظہار:

مباہلہ کا واقعہ اسلام کی حقانیت کا ایک واضح مظہر تھا، جس نے تمام دیگر مذاہب (اس معاملے میں عیسائیت) پر اسلام کی برتری ثابت کی۔ اس واقعہ کا ایک گہرا مقصد مسلمانوں کو اہل بیت علیہم السلام کا حقیقی مقام دکھانا بھی تھا۔ امام علی علیہ السلام کو "أَنفُسَنَا" (نفس/ذات) کے طور پر منتخب کرنا، انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی ذات کا ایک توسیع قرار دیتا ہے، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے رہنما کی نشاندہی کرتا ہے۔ اہل بیت علیہم السلام اسلام کی حقیقت سے سب سے زیادہ واقف اور اس کی روشنی پھیلانے کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے۔ وہ راستبازی کے مذہب اسلام کا حقیقی چہرہ تھے۔

یہ واقعہ اسلام کے لیے، خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے لیے، ایک دائمی، ناقابل تردید معجزہ (معجزہ) کے طور پر کام کرتا ہے، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے لیے الٰہی حمایت اور اہل بیت علیہم السلام کے منفرد، معصوم مقام کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ان کی بے مثال اتھارٹی اور سچے دین کے علم کو ثابت کرتا ہے، جس سے وہ حتمی نمونہ اور رہنما بنتے ہیں، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد قیادت میں ان کے کردار کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

مباہلہ کی اہمیت اور اہل بیت (ع) کی فضیلت

مباہلہ کا واقعہ اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، اور شیعہ عقائد میں اس کی اہمیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

شیعہ عقائد میں مباہلہ کا مرکزی کردار:

مباہلہ کا واقعہ شیعہ عقائد میں اہل بیت علیہم السلام کی عظمت، عصمت اور امامت کی دلیل کے طور پر ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی رجس سے پاک کیا ہے اور جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد امت کی رہنمائی کے لیے سب سے زیادہ اہل ہیں۔

مباہلہ شیعہ کلامیات کے لیے ایک بنیادی ستون ہے، جو اہم عقائد کے لیے بنیادی شواہد فراہم کرتا ہے۔ یہ واقعہ، آیت تطہیر کے ساتھ مل کر، اہل بیت علیہم السلام کی عصمت اور الٰہی انتخاب کے لیے ٹھوس قرآنی اور حدیثی شواہد فراہم کرتا ہے۔ یہ براہ راست شیعہ امامت کے عقیدے کو تقویت دیتا ہے، جہاں صرف الٰہی طور پر مقرر کردہ اور معصوم رہنما ہی امت کی رہنمائی کر سکتے ہیں، جو روحانی اتھارٹی میں ایک واضح سلسلہ قائم کرتا ہے۔ شیعہ مسلمانوں کے لیے، مباہلہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ائمہ کی روحانی اتھارٹی اور پاکیزگی کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ یہ ان کے پورے عقیدے کے نظام کی بنیاد ہے، جو قیادت، رہنمائی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کی نسل کے ذریعے الٰہی سچائی کے تسلسل کے بارے میں ان کی تفہیم کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے، جس سے یہ ان کے عقیدے کا ایک مرکزی ستون بن جاتا ہے۔

اہل بیت (ع) کا مخالفین کے ساتھ مباہلہ کی روایت:

شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن کے مطابق مباہلہ کے وقت اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں مدمقابل کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنی چاہئیں۔ تاریخی طور پر، اہل بیت علیہم السلام اور شیعہ علماء نے بھی مختلف مواقع پر مخالفین کے ساتھ مباہلہ کیا ہے۔ امام علی علیہ السلام نے کنیز کے ساتھ ظہار نہ ہونے کے مسئلے میں لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی۔ امام باقر علیہ السلام نے عبد اللہ بن عمر لیثی سے گفتگو کے دوران، جب وہ کسی مسئلے کو تسلیم نہیں کر رہا تھا تو اسے مباہلہ کی دعوت دی۔ میرفندرسکی نے ایک بحث میں اپنی عبادت گاہ کی چھت گرنے کا معجزہ دکھایا جب انہوں نے مخالفین کے دعوے کو رد کرنے کے لیے اذان دی اور نماز ادا کی۔

آئمہ اور علماء کے ذریعہ مباہلہ کا تسلسل شیعہ فکر و عمل میں اس کی دیرپا مطابقت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مباہلہ محض ایک منفرد تاریخی واقعہ نہیں بلکہ شیعہ فقہ اور کلامیات کے اندر ایک زندہ روایت اور ایک جائز روحانی ذریعہ ہے۔ یہ الٰہی سچائی کی مسلسل موجودگی اور اس کے حقیقی نمائندوں کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے کہ جب دلائل ناکام ہو جائیں تو وہ الٰہی فیصلے کو طلب کر سکیں، جو ابتدائی واقعہ سے ہٹ کر اس کے عملی اطلاق کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ تسلسل اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کی دائمی روحانی اتھارٹی پر یقین کو تقویت دیتا ہے۔ یہ تجویز کرتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل مباہلہ میں جو طاقت اور تاثیر ظاہر کی تھی وہ ان لوگوں کے ذریعے ظاہر ہو سکتی ہے جو واقعی ان کی میراث کو برقرار رکھتے ہیں، جو گہرے کلامی تنازعات کو حل کرنے اور نسلوں تک الٰہی سچائی کو ظاہر کرنے کا ایک عملی ذریعہ فراہم کرتا ہے۔

روز مباہلہ کی اہمیت:

روز مباہلہ (24 ذی الحجہ یا بعض روایات کے مطابق 21 ذی الحجہ) کو شیعہ مسلمانوں میں ایک عید کے طور پر منایا جاتا ہے، جو اہل بیت علیہم السلام کی عظمت اور اسلام کی فتح کی یادگار ہے۔ شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعہ مباہلہ 24 ذی الحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔

خاتمہ

مباہلہ کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رسالت، قرآن کی حقانیت اور اہل بیت علیہم السلام کی بے مثال فضیلت و طہارت پر ایک غیر متزلزل دلیل ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف تاریخ کا حصہ ہے بلکہ شیعہ عقائد میں امامت اور عصمت کے بنیادی اصولوں کی تائید بھی کرتا ہے، جہاں اہل بیت علیہم السلام کو الٰہی طور پر پاکیزہ اور امت کی رہنمائی کے لیے سب سے زیادہ اہل قرار دیا جاتا ہے۔

اہل سنت کی مستند کتب میں اس واقعہ کی تائید اس کی عالمگیر اہمیت اور اہل بیت علیہم السلام کے مقام پر امت مسلمہ کے وسیع تر اتفاق کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی مقام عطا فرمایا ہے اور انہیں ہر قسم کی پلیدی سے پاک رکھا ہے۔ مباہلہ آج بھی حق و باطل کے درمیان تمیز اور الٰہی حجت کے طور پر ایک زندہ معجزہ ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف تاریخی تفہیم کے لیے بلکہ عصری ایمان کے لیے بھی مباہلہ کی گہری اور جاری کلامی اہمیت کو تقویت دیتا ہے، خاص طور پر شیعہ کمیونٹی کے لیے، جو اسے اسلامی عقیدے کا ایک بنیادی ستون اور الٰہی سچائی کا ایک ثبوت بناتا ہے۔