نبوت کے منصب کی طرح امامت کا منصب بھی خدا کی جانب سے بندوں کے لیے ہوتا ہے اور امام کا یہ تقرر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ یا پچھلے امام کی زبان سے ہوتا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف سے یا اس سے پچھلے امام کی طرف سے مقرر ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ اور امام میں کوئی فرق نہیں ہے اور لوگ اس ذات کی نسبت کسی قسم کے اعتراض کا حق نہیں رکھتے جس کا تقرر خدا کی طرف سے انسانوں کی رہبری اور تربیت کے لیے ہوتا ہے ۔ اسی طرح انہی امام کے تعین ، تقرر اور انتخاب کرنے کا حق بھی نہیں ہے کیونکہ ایسے شخص کو تو صرف خدا ہی پہچان سکتا ہے جو اس پاک روحانی قوت کا مالک ہو اور تمام انسانوں کی رہنماءی اور امامت کی ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے لائق ہو اس لیے خدا ہی کو اس کا تقرر کرنا چاہیے۔ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے جانشین اور اپنے بعد کے پیشواؤں کا تقرر کر دیا تھا یعنی اپنے چچیرے بھائی علی ابن ابی طالب ؑ کو کئی موقعوں پر مومنوں کا سردار، وحی کا امانت دار اور انسانو کا رہبر مقرر فرمایا اور غدیر کے دن علی ؑ کی ولایت کا عام اعلان فرمایا اور لوگوں سے ان کے لیے بطو مومنوں کے سردار کے بیعت لی اور صاف صاف فرما دیا:۔ اَلاَ مَن کُنتُ مَولاَہُ فَھٰذَا عَلِیُّ مَولاَہُ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَن وَّالاَہُ وَعَادِ مَن عَادَاہُ وَانصُر مَن نَصَرَہُ وَاخذُل مَن خَذَلَہُ وَادرِ الحَقَّ مَعَہُ کَیفَ مَادَارَ:۔ دیکھو جس کا میں سردار اور رہبر ہوں یہ علی ؑ بھی اس کے سردار اور رہبر ہیں، اے خدا! اس سے محبت کر جو علیؑ سے محبت کرے اور اس کو دشمن رکھ جو علی ؑ سے دشمنی رکھے، جو علی ؑ کی مدد کرے اس کی مدد کر۔ جو علی ؑ کو چھوڑ دے اسے تو بھی چھوڑ دے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علیؑ مڑے۔ (ملاحظہ، ابن ابی الحدید: شرح نہج البلاغۃ جلد ۱ صفحہ ۲۸۹ طبع اول ، بلاذری، انسابُ الاشراف جلد ۲ صفحہ ۱۱۲ ، ابن عساکر: تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۱۳، کنجی شافعی: کفایت الطالب صفحہ ۶۳ ، حاکم جسکانی : شواہد التنزیل جلد ۱ صفحہ ۱۹۲ ، ہیمثی : مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۱۰۵، شہرستانی، الملل والنحل جلد ۱ صفحہ ۱۶۳، نساءی : خصائص علی ابن ابی طالب ؑ صفحہ ۹۶) پہلی بار پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے بعد علیؑ کی امامت کی وضاحت اس وقت فرمائی تھی جب انہوں نے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو (نبوت کی تبلیغ کے لیے)بلایا تھا۔ اس موقع پر علی صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اِنَ ھَذَا اَخِی وَ وَصِیِّی وَ خَلِیفَتِی فِیکُم مِن بَعدِی فَاسمَعُوا لَہُ وَاَطِیعُوہ :۔ یہ میرا بھائی، وصی اور میرےبعد میرا خلیفہ ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت اور پیروی کرو۔ (ملاحظہ، سیرت حلبیہ جلد ۱ صفحہ ۳۲۲ تاریخ کامل ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۶۳ تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۳۱۹) بھی نہیں پہنچے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علی علیہ السلام سے یہ بھی فرمایا: اَنتَ مِنِّی بِمَنزِلَۃِ ھَارُونَ مِن مُوسیٰ اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعدِی :۔ تمہی مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون ؑ کو موسیٰ ؑ سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ (ملاحظہ ، یہ حدیث تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اور اس کے راویوں میں جابر ابن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری ، ابو ایوب انصافی، عبداللہ ابن عباس ، سعد ابن ابی وقاص عمر ابن خطاب ، عبداللہ ابن عمر، معاویہ اور ابوہریرہ شامل ہیں ، ملاحظہ ہوصحیح بخاری: باب مناقب علی ابن ابی طالب ؑ، صحیح مسلم: باب من فضائل علی ابن ابی طالب ؑ، صحیح ترمذی، باب مناقب علیؑ سنن ابن ماجہ، باب فضائل علی ابن ابی طالبؑ نیز دیکھیے احمد بن حنبل کی المسند، حاکم کی مستدرک علی الصحیحن ، ابن سعد کی طبقات اور ہیثمی کی مجمع الزوائد، اس کے علاوہ متعدد حوالے ہیں جنہیں المراجعات میں دیکھا جاسکتا ہے) امام علی ؑ کی رہبری اور ولایت کے ثبوت میں، بہت سی روایتیں دلیل کے طور پر موجود ہیں۔ (ملاحظہ، تفصیلات کے لیے علامہ امینی کی الغدیر ملاحظہ فرمائیے) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہ ُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ اٰمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوۃَ وَیُوتُونَ الزَّکٰوۃَ وَھُم رَکِعُونَ :۔ در حقیقت تمہارا سردار اور رہبر اللہ ہے ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوۃ دیتے ہیں۔ (سورہ مائدہ ۔ آیت ۵۵) یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب امام علی ؑ نے حالت رکوع میں ایک محتاج کو اپنی انگوٹھی خیرات کر دی تھی۔ آگے چل کر امام علی ؑ نے اپنے بعد کے امام کی حیثیت سے امام حسن اور امام حسین ؑ کا تعارف اور تقرر فرمایا۔ امام حسین ؑ نے اپنے بیٹے امام علی زین العابدین ؑ کو متعین کیا اور اس طرح پہلے امام نے اپنے بعد کا امام مقرر کیا اور یہ طریقہ آخری امام (حضرت مہدی آخرالزمان ؑ )تک جاری رہا کیونکہ ان کے بعد کوئی امام نہیں آئے گا۔
اترك تعليق