8شوال اور واقعہ جنت البقیع

جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع ایک تاریخی اور مقدس قبرستان ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس قبرستان میں رسول اللہ ﷺ کے خاندان، اہلِ بیتؑ، اصحابِ کرامؓ اور تابعین و تبع تابعین کی متعدد عظیم شخصیات مدفون ہیں۔ جنت البقیع کی تاریخ اسلام کے ابتدائی دور سے جڑی ہوئی ہے اور یہاں کی قبور کی زیارت مسلمانوں کے لیے ہمیشہ باعثِ عقیدت رہی ہے۔

اسلامی تاریخ میں جنت البقیع کو بہت بلند مقام حاصل رہا ہے۔ یہاں حضور اکرم ﷺ اکثر تشریف لاتے، شہداء و مرحومین کے لیے دعا فرماتے اور مسلمانوں کو یہاں زیارت کرنے کی تلقین فرماتے۔ اس قبرستان میں چار آئمہ اہلِ بیتؑ، امام حسن مجتبیٰؑ، امام علی زین العابدینؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ بھی مدفون ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ، رسول اللہ ﷺ کے فرزند حضرت ابراہیمؑ، آپﷺ کی صاحبزادیاں حضرت رقیہؑ، حضرت زینبؑ، حضرت ام کلثومؑ اور کئی جلیل القدر اصحاب کی قبور بھی یہاں موجود ہیں۔

8 شوال 1345 ہجری بمطابق 21 اپریل 1925 کو سعودی عرب میں قائم ہونے والی آل سعود حکومت نے وہابی مکتب فکر کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے جنت البقیع کے مزارات، گنبدوں اور تمام آثار کو مسمار کر دیا۔ سعودی حکام کا دعویٰ تھا کہ قبروں پر تعمیرات قائم کرنا اور مزارات پر حاضری دینا اسلامی شریعت کے خلاف اور شرک کے مترادف ہے۔ لیکن اس اقدام نے دنیا بھر کے مسلمانوں، خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی۔

مزارات کے انہدام کے بعد سے ہی دنیا بھر میں اس عمل کے خلاف احتجاج اور آواز بلند ہونے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ ہر سال 8 شوال کو دنیا بھر کے مسلمان "یوم انہدامِ جنت البقیع" کے طور پر مناتے ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے، سیمینار، مجالس اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان تقاریب میں شرکت کرنے والے افراد سعودی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تاریخی اور مذہبی اہمیت کے حامل اس مقام کی دوبارہ تعمیر کی اجازت دے۔

اس انہدام کے نتیجے میں نہ صرف مسلمانوں کا تاریخی ورثہ متاثر ہوا بلکہ اسلامی تاریخ کے ان عظیم شخصیات کے مزارات بھی مٹ گئے جو مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد کا باعث تھے۔ ان مزارات کی زیارت مسلمانوں کے دلوں میں محبت، اتحاد اور احترام پیدا کرتی تھی۔ آج بھی لاکھوں زائرین مدینہ منورہ آتے ہیں لیکن انہیں ان عظیم شخصیات کے مدفن کے پاس کھلے دل سے فاتحہ خوانی کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔

بین الاقوامی سطح پر متعدد مرتبہ انسانی حقوق کی تنظیموں، مسلم ممالک کے سربراہان اور مذہبی اسکالرز نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جنت البقیع کے مزارات کی دوبارہ تعمیر کا راستہ کھولا جائے۔ ان مطالبات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مزارات کی بحالی سے مسلمانوں کے جذبات کا احترام ہو گا اور بین المسالک ہم آہنگی میں بھی اضافہ ہوگا۔ تاہم سعودی عرب کی حکومت اب تک اس معاملے پر کوئی مثبت پیش رفت نہیں دکھا سکی ہے۔

مذہبی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو مزارات اور قبروں کی زیارت نہ صرف جائز ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور روایات سے ثابت بھی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں متعدد روایات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بقیع کی زیارت کی، شہداء کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی اور مسلمانوں کو ان مقامات کی زیارت کی تلقین فرمائی۔ اہلِ سنت اور شیعہ کتب میں قبروں پر حاضری اور دعا و استغفار کے حوالے سے بے شمار احادیث موجود ہیں جن سے مزارات کی شرعی حیثیت ثابت ہوتی ہے۔

سعودی حکومت کے اس اقدام کو صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کی وہابی حکومت نے اپنے خاص نظریے کے تحت دیگر مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو دبانے اور ایک خاص فکر کو فروغ دینے کے لیے ان مزارات کو شہید کیا۔ یہ اقدام مسلم دنیا میں اختلافات کو ہوا دینے کا سبب بنا اور اس کے اثرات آج بھی مسلم معاشروں میں موجود ہیں۔

جنت البقیع کی موجودہ حالت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بے حد افسوسناک اور دردناک ہے۔ اس مقام کی تاریخی اور مذہبی حیثیت کی بحالی مسلمانوں کا مشترکہ مطالبہ ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے مسلسل عالمی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ مسلمان امید کرتے ہیں کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب جنت البقیع کی عظمت رفتہ بحال ہوگی اور یہ مقام پھر سے مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بن جائے گا۔