جنت البقیع میں، سناٹا بولتا ہے
خاموش قبروں سے، مظلومیت ٹپکتی ہے
نہ کتبہ، نہ چراغاں، نہ سایہ در و دیوار
سجادؑ کی لحد پر، بچھا ہے صرف غبار
وہ باقرؑ علم والا، صادقؑ کا نور چہرہ
سب قبروں میں چھپے ہیں، تاریخ کا اندھیرا
حسنؑ کا وہ مدفن، جس پر فرشتے روتے تھے
جس پر رسولؐ آ کر، ہر شب درود پڑھتے تھے
آج بے نشاں ہے، نہ کوئی پہچان باقی
بقیع کی زمیں پر، فقط ہے ویرانی طاری
اُمت نے وہ ظلم کیا، قبریں مٹا دی گئیں
فاطمہؑ کے لالوں کی، پہچان گنوا دی گئیں
کاش اک بار طیبہ کی فضا دہرا اُٹھتی
فریادِ زہراؑ سے زمین لرزا اُٹھتی
اے ویران مزارو! ہم شرمندہ ہیں بہت
تعمیر کے وعدوں میں، سویا ضمیرِ اُمت
صدیوں سے ہے منتظر، صادقؑ کا در مٹی میں
حسنؑ کی غربت بھی ہے، دفن خبر مٹی میں
زائر ترستے ہیں، سجدے کو وہ زمین
جہاں اماموں کے قدموں کی رہ گئی نشین
آنسو لیے دنیا بھر سے، مومن آتے ہیں
بقیع کے در و بام سے، دعائیں مانگتے ہیں
یا رب! وہ دن بھی دکھا، جب گنبد بنے حسین
جب روشن ہو پھر سے، بقیع کا ہر ایک زمین
جب قبروں پر چمکے، دوبارہ نورِ نبیؐ
اور فاطمہؑ کی آنکھوں میں، آئے پھر خوشی
وہ قبریں، وہ گنبد، جو تھے نورِ زمین
جہاں پر نبیؐ کی آل کا تھا رہنا یقینی
آج وہ جگہ سوگ میں ڈوبی ہوئی ہے
جنت البقیع، جس کی تاریخ روتی ہوئی ہے
حسنؑ کی غربت میں، فاطمہؑ کی آہ
دعا گو تھی، ماؤں کی دعائیں تھیں چھاگئیں
سجادؑ کا وہ درد، باقرؑ کا وہ علم
یہ سب خواب بنے، یہ سب کمر ہو گئے ختم
سچ ہے یہ، جنت البقیع کا شکوہ
غموں کی فصلِ بہار بن چکی ہے صیفہ
وہ گلاب جو خوشبو لاتے تھے ہر روز
آج وہ مٹی میں دفن ہیں، دلوں میں وہ سوز
لبوں پر چڑھ کر، ان کا ذکر نہ آیا
ظالموں نے ان کے مزارات کو مٹا ڈالا
جنت کے رنگ چھین کر، ہوا اجالا
چاندنی راتوں میں گزر نہ سکا کوئی بھی کمالا
وہ فاطمہؑ کی دعاؤں کا اثر تھا
وہ صادقؑ کی رحمت کا سفر تھا
پر آج یہ سب دفن، ناپاک ہو چکا
دور ہو چکا، وہ نور جو سچ تھا
الٰہی! ہمیں معاف کر، اپنے سچے در پر
ان ہستیوں کی یادوں میں، سوگ کا منظر
یا رب! اب تڑپتے دلوں کو سکون دے
اور جنت البقیع کو پھر سے جلاء دے