عرفاء کے نزدیک محبت الہیٰ

ماسواہ۔فاذا تحقق العلم فی الصدرخاف،واذاصحّ الخوف ہرب،واذاھرب نجاواذا اشرق نورالیقین فی القلب شاھد الفضل واذاتمکن من رؤیة الفضل رجا، واذا وجد حلاوة الرجاء طلب،واذاوُفّق للطلب وجد۔واذا تجلّیٰ ضیاء المعرفة فی الفؤاد۔ھاج ریح المحبة،واذاھاج ریح المحبة استأنس ظلال المحبوب،وآثرالمحبوب علیٰ ماسواہ،وباشر اوامرہ۔ومثال ھذہ الاصول الثلاثة کالحرم والمسجدوالکعبة،فمن دخل الحرم أمن من الخلق،ومن دخل المسجد أمنت جوارحہ أن یستعملھافالمعصیة،ومَن دخل الکعبة أمن قلبہ من أن یشغلہ بغیرذکراللّٰہ ''(١)

''عارفوں کی مناجات تین اصول پر گردش کرتی ہے :خوف ،امید اور محبت ۔خوف علم کی شاخ ہے ،امید یقین کی شاخ ہے اور محبت معرفت کی شاخ ہے خوف کی دلیل ہر ب (فرار اختیار کرنا) ہے ،امید کی دلیل طلب ہے اور محبت کی دلیل محبوب کو دوسروں پر تر جیح دینا ہے ،جب سینہ میں علم متحقق ہوجاتا ہے تو خوف ہوتا ہے اور جب صحیح طریقہ سے خوف پیداہوتاہے توفراروجود میںآتاہے اورجب فراروجودمیںآجاتاہے توانسان نجات پا جاتا ہے ،جب دل میں یقین کا نور چمک اٹھتا ہے تو عارف انسان فضل کا مشا ہدہ کرتا ہے اور جب فضل دیکھ لیتا ہے تو امید وار ہو جاتا ہے ،جب امید کی شرینی محسوس کر لیتا ہے تو طلب کرنے لگتا ہے اور جب طلب کی تو فیق ہو جا تی ہے تو اس کو حا صل کرلیتا ہے ،جب دل میں معرفت کی ضیاء روشن ہو جا تی ہے تو محبت کی ہوا چل جا تی ہے اور جب محبت کی ہوا چل جا تی ہے تو محبوب کے سا یہ میں ہی سکون محسوس ہوتا ہے اور محبوب کے علاوہ انسان ہر چیز سے  لا پرواہ ہو جاتاہے اور براہ راست اپنے محبوب کا تابع فرمان ہو جاتا ہے ۔ان تین اصول کی مثال حرم ۔۔

(١)مصباح الشریعہ صفحہ ٢۔٣۔

مسجداور کعبہ جیسی ہے جو حرم میں داخل ہو جاتا ہے وہ مخلوق سے محفوظ ہو جاتا ہے ،جو مسجد میں داخل ہوتا ہے اس کے اعضاء و جوارح معصیت میں استعمال ہو نے سے محفوظ ہو جا تے ہیں جو کعبہ میں داخل ہو جاتا ہے اس کا دل یاد خدا کے علا وہ کسی اور چیز میں مشغول ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے ''

 

منسلکات