جب دکھایا رنگ اپنا کفر کے بازار نے
ہر فریب و مکر پہ حملہ کیا کردار نے
کر دیا پامال بیعت کے وفور شوق کو
بیڑیوں نے ، طوق نے ، زنجیر کی جھنکار نے
اس عمارت کی نہ ہو گی اب کوئی دیوار کج
کر دیا تعمیر ایسا ہاشمی معمار نے
پڑ گیا بھاری مسلمانوں پہ خیبر کا جو در
ایک انگلی سے اکھاڑا حیدر کرار نے
تیرا فدیہ دیکھنے کو آئے ہیں سب انبیاء
کھینچ لایا ہے انہیں میثاق کے اقرار نے
رشتہ ء قرآن و عترت ہو گیا سب پر عیاں
نوک نیزہ پر تکلم جب کیا سرکار نے
کر چکی تھی ساری دنیا بیعت باطل قبول
لاج رکھ لی دین کی شبیر کے انکار نے
دیکھ لے اے دعوی دار حب حیدر ، دیکھ لے
کاٹ کر دے دی زباں ہے میثم تمار نے
الحفیظ و الاماں اے وارث ابن علی
کر دیا دشوار جینا زندگی کے بار نے
مدح ممدوح خدا نقوی کے بس میں ہے کہاں
تیرے در سے لے لیا صدقہ ترےفنکار نے