امام علی الھادی علیہ السلام مدینہ میں قیام پذیر تھے لیکن متوکل نے بھی اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ اپنے اجداد والا سلوک روا رکھا جس کی وجہ سے اہلبیت علیہم السلام اور اقرباء اور پیروکاران پر مظالم ڈھانے شروع کردئیے اور انہی مظالم میں سے بلا رضائیت امام علی الھادی علیہ السلام کو سامراء لے آنا تھا اور اس سفر کا سبب مقامی حکومتی کارندوں کا متوکل کو خطوط لکھنا تھا کہ مقامی لوگ امام علیہ السلام کی طرف مائل ہونا تھا اور ان کی اطاعت کرنا تھا اور جب امام ہادی علیہ السلام کے پاس یہ خبر پہنچی تو امام علیہ السلام نے متوکل کو خط لکھا کہ عبد اللہ بن محمد جو کہ حکومتی اہلکاروں کا سرغنہ تھا کے امام علیہ السلام سے ذاتی رنجش و حقد کی اطلاع دی ۔
اس پر متوکل نے امام علیہ السلام کو جواباً خط ارسال فرمایا جس میں سب مکرو فریب و جھوٹ کہا کہ میں آپ کی زیارت کا مشتاق ہوں اور سامراء میں آپکو اپنا مہمان بنانا چاہتا ہوں اور میں آپ کی عزت کرتا ہوں اور نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا احترام کرتا ہوں ۔
اور خط میں مزید لکھا تھا کہ امیرالمؤمنین آپ کی زیارت کے لئے بے قرار ہیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے دیدار کے لئے بے چین ہیں ۔
ان ہتھکنڈوں کا مقصد اس طریقے سے بلانا تھا تاکہ آپ کے اصحاب اور پیروکاران کے جذبات کو دھوکا دیا جائے لیکن اصحاب امام علیہ السلام متوکل کی اہلبیت علیہم السلام سے نفرت کا علم رکھتے تھے اسی لئے جب یحییٰ بن حرثمہ مدینہ میں داخل ہوا تاکہ امام علیہ السلام کو سامراء لے جاسکے تو لوگوں نے امام علیہ السلام کی حفاظت کے لئے ہنگامہ بپا کیا جس کی وجہ سے یحییٰ بن حرثمہ حیران رہ گیا پس امام علیہ السلام نے سامراء کا سفر فرمایا اور وہاں 20 سال اور 9 ماہ تک زندگی گزاری یہاں تک کہ معتز عباسی کے دور حکومت میں شہادت پائی