حضرت امام حسین علیہ السلام ایک ایسا نام نہیں کہ جس نے ظلم کے خلاف خروج کیا بے شک حضرت امام حسین علیہ السلام آزادی و کرامت ، شجاعت و حقانیت ، امید انسانیت سے روشناس کرانے اور حق و باطل کے درمیان قوت کی جنگ نہیں بلکہ اقدار انسانیت کی بقاء اور باطل کی کوششوں کو ناکام بنانا تھا ۔ یہ کوشش پیغام سماوی اور بت پرستوں کے درمیان حقانیت کو ثابت کرنا تھا ، انبیاء اور بچھڑا پرستوں ، اصلاح اور گمراہی اور عظمت و ذلالت سے آگاہی دلانا تھا ۔
انسانیت کی بقاء اور انسانی اقدار کی حفاظت اور اسلام محمدی کی اصل صورت پہنچانا ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام قربانی ، فدیہ ، شجاعت اور پرہیزگاری کا عظیم ورثہ چھوڑ گئے ہیں جو کہ گذشتہ امتوں میں سے کسی امت کے پاس نہیں ہے ۔
برطانوی محقق آرتھر ولسٹون نے اپنی تحریر میں لکھا ہے : عالم نے آج تک بھوک و پیاس و ظلم کی ایسی مثال نہیں دیکھی مگر پھر بھی اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے اتنی بڑی تعداد میں تپتے صحراء میں دشمنوں سے مقابلہ کیا ۔
جی ہاں ۔ یہ حضرت امام حسین علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے دشمنوں سے مقابلہ کیا اور یہ بذات خود میں ایک انتہائی اعلیٰ ارادتمندی کی مثال ہے ۔
صبر و استقلال و اعلیٰ اخلاق کی بے نظیر مثال حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں اور یہ کہنا بے جاء نہ ہوگا کہ آپ کی ذات معجز نما تھی اور بے شک آپ کی شخصیت ہر دور کے علماء کے لئے باعث فخر تھی ۔
آپ کی اعلیٰ شخصیت کے بارے میں ابن ابی الحدید معتزلی نے تحریر کیا ہے کہ آپ ایسے بلند آقا ہیں کہ جس نے لوگوں کو تلواروں کے سائے تلے موت کو اختیار کرتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف داری سکھایا ،جب ابن زیاد نے ذلت کے عوض آپ کو اور آپ کے اصحاب کو امان کی پیشکش کی لیکن انہوں نے موت کو اختیار کیا ۔
انگریزی تاریخ دان ایڈوارڈ جیبون تحریر کرتے ہیں کہ "حضرت امام حسین علیہ السلام پر ڈھائے جانے والے ظلم باوجودیکہ آپکا عھد گزر چکا ہے کمزور اور طاقتور انسان آپ کے ساتھ گزرے واقعات کا دل پر اثر لیتا ہے اسلام کی تاریخ میں اور بالخصوص سیرت حضرت امام حسین علیہ السلام کا مطالعہ کریں تو علم ہوگا کہ واقعہ کربلاء میں آپکا مؤقف اتنا محکم تھا کہ اگر آپکی شہادت نہ ہوتی تو اسلام مدتوں پہلے ختم ہوچکا تھا کیونکہ آپ علیہ السلام ہی اسلام کو بچانے والے تھے اور آپ علیہ السلام کی شہادت کی بدولت اسلام کی بنیادیں مظبوط ہوئیں اور اسے گرانا ناممکن ہی نہیں بلکہ اس کا تخیل بھی غیر ممکن ہے ۔
لبنانی ادیب پولس سلامہ نے کہا ہے کہ
"ظالمین کے آگے حضرت امام حسین علیہ السلام سے زیادہ بہادر کوئی ثابت قدم نہیں ٹھہرا بے شک آپ کے والد علی علیہ السلام حق کے لئے جئیے اور اور اس کو اجاگر کرنے کے لئے روز بدر سے تلوار اٹھائی اور اسی راستے پر چلتے ہوئے فرزند علی نے کربلاء مقدسہ میں شہادت پائی ۔
انڈین لیڈر پرستم داس ٹنڈن کہتے ہیں :
" بچپن سے شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کا درد میرے اندر گہرائی تک اثر کرتا تھا اور میں دعاگو تھا کہ یہ اثر ہمیشہ زندہ رہے کیونکہ اس طرح کی قربانی جو حضرت امام حسین علیہ السلام نے پیش کی بشریت کی روح میں جان ڈال گئی ہے "
جمال الدین افغانی نے کہا
اسلام محمد وجود و وقوع کا نام ہے اور حسینیت بقاء اور ہمیشگی کا نام ہے
انگریزی مؤرخ جیمز کارکرن نے کہا
دنیا میں رستم نے شجاعت میں نام کمایا مگر اس بہادری کا ذکر کرنے والے نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلاء کی تاریخ نہیں پڑھی جہاں حضرت امام حسین علیہ السلام نے بشریت کی تاریخ میں شجاعت کی مثال پیش کی ۔
جبران خلیل جبران نے کہا
حسین جیسا انسان نہیں ملا جس نے بشریت کی عظمت کو اپنے لہو سے تحریر کیا
طہ حسین نے کہا
حسین اپنے والد کی طرح تھے حق پر ڈت جانے والے اور جہاں تسامح کی گنجائش نہ تھی تسامح نہ کرتے تھے ۔
اسی طرح دسیوں بلکہ سینکڑوں ادباء ، علماء اور فلاسفروں ، مفکروں ، دانشوروں اور مؤرخین نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت کے جوانب پر روشنی ڈالی ہے اور کیا کہنے عظمت حضرت امام حسین علیہ السلام کے؟
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت کی معرفت پائی اور اسے بیان کیا ، اور حضرت امام حسین علیہ السلام جن انسانی اہداف کے حصول کے لئے جس راستے پر چلے اس پر روشنی ڈالی اور اس کے ساتھ ہی اس راستے پر چلتے ہوئے اس کے حصول کے لئے اپنی جان دینے سے گریز نہیں کیا ،اور یہی اہداف دراصل تمام انسانی اقدار ہیں ، کیونکہ انسانیت کسی ایک مذہب و دین کے ساتھ مختص نہیں ہے اور نہ ہی کسی قوم و قومیت کے ساتھ منسلک ہے اور اسی انسانیت کو حضرت امام حسین علیہ السلام نے روز عاشوراء میدان کربلاء میں حاصل کیا ۔
اور کونسا ایسا ہدف ہے جو اس ہدف سے عظیم تر ہو؟ اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے بارہا امت کو بیدار کرنے کے لئے اپنا پیغام دہرایا کہ میں اہلبیت نبوت سے ہوں اور ہم محافظان رسالت ہیں اوریزید فاسق اور شرابی انسان ہے ، بے گناہ قتل کرتا ہے اور مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت کبھی نہیں کرے گا ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کا نکلنا اس حد تک ترقی کرگیا کہ اس کا اثر امت اسلامیہ پر پڑا اور امت کو راہ راست پر لے آیا ہے اور اسلامی مفاھیم کی درستگی کی جب اموی حکمرانوں نے اسلام کی تحریف کی ، اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کے ذھنوں میں جعلی اسلام کی تبلیغ کی ،جبکہ اسلام کے مفاہیم قربانی و عطاء و فداء و وفاء پر مبنی تھے اور ایک عظیم قربانی جو کہ کربلاء مقدسہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے دی اور یہ ایک ایسی عظیم قربانی تھی کہ جس نے نوع انسانی کے ضمائر میں ولولہ دوڑا دیا اور مردہ دلوں کو زندگی بخش دی وہ ضمائر جسے اموی ظلم و جور و جھوٹی سیاست نے مردہ کردیا تھا بے شک یہ قربانی انتہائی ظالم و جابر حکام کے مقابلے میں دی گئی اور بلا شک اس وقت کا کوچ کرنا کسی کے لئے بھی باعث موت تھا ۔
اترك تعليق