قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کی تبلیغ اور ان پر گزرنے والی صعوبات کا ذکر فرمایا ہے اور جو تنقید رسول اللہ شعیب علیہ السلام پر کی جاتی تھی اس کا ذکر فرمایا ہے یہاں تک کہ قرآن کریم میں 35 آیات کریمہ بلکہ یہاں تک کہ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کا اسم گرامی 11 مرتبہ ذکر ہوا ہے ۔
یہ وہی لوگ تھے جو اس وقت تک کی بد ترین قوم تھے جو وزن میں کمی و بیشی کرتے تھے اور دینے میں بخل اور لینے میں کثرت کے خواہشمند رہتے تھے،لوگوں پر رعب آزمائی کرتے اور ڈاکہ زنی کرتے تھے۔
مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو خطیب الانبیاء کالقب عطاء فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اسی قوم کی طرف مبعوث فرمایا تھا کہ انہیں ہدایت کا راہ دکھائیں اور اس رذالت سے نجات دلائیں اور ناپ تول میں کمی سے باز آجائیں
جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر آیا ہے
"اے میری قوم ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچاؤ"
اور اسی طرح دوسری آیت کریمہ میں ذکر ہے
"اور تم ناپ تول میں کمی نہ کرو کہ میں تو تمہیں آسودہ حال میں دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمہیں گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف بھی ہے"
آیت کریمہ میں حضرت شعیب علیہ السلام کی جانب سے امر الہیٰ کو پہنچانے میں صاف ذکر تھا کہ ناپ تول میں کمی سے باز آجاؤ اور اگر باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا ایک دن معین ہے جس دن کوئی توبہ و فرار فائدہ نہ دے گا
حضرت شعیب علیہ السلام کا ہدف تبلیغ واضح تھا مگر چونکہ بات منافع کی تھی اس لئے ان کی قوم نے آپ علیہ السلام پر الزام تراشی کی کہ ہمیں روک کر خود منافع کمانا چاہتے ہیں تو آیت کریمہ میں ذکر آیا ہے ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا
"اے میری قوم! دیکھو تو میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لے کر آیا ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے میرا یہ بالکل ارادہ نہیں ہے کہ تمہاری مخالفت کرکے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں میرا ارادہ تو تمہاری اصلاح کرنے کا ہے اور میری توفیق اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے اور اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں"
اور یہی ادعاء دیگر انبیاء کرام کا تھا کہ اجر امت سے طلبگی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور تھا
اور جہاں تک ناپ تول میں کمی کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک انتہائی قبیح فعل ہے اور یہ امتوں کی ہلاکتوں کا سبب بنا ہے کیونکہ یہ ظلم میں شمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ظالم کو پسند نہیں کرتا اور اسی واقعہ نبی شعیب علیہ السلام میں ہمیں ملتا ہے کہ اگر ظلم باقی رہے تو عذاب الہیٰ یقینی ہے اور قرآن مجید میں کئی ایسی آبادیوں کا ذکر ہے جو ظلم کے سبب عذاب الہیٰ کاشکار ہوئیں
اترك تعليق