اہل کوفہ کی جانب سے خط و کتابت کا سلسلہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے جاری تھا اور ہر خط کا موضوع امام علیہ السلام کی کوفہ میں آمد تھا اور یہاں تک کہ بعض خطوط کے مضامین اس قدر شدید تھے کہ مثلاً آپ کی تاخیر اللہ تعالیٰ کے حضور پرسش کی جائے گی پس اسی بناء پر اہل بیت علیہم السلام سے اپنے بزرگ مسلم بن عقیل علیہ السلام کو اپنا سفیر منتخب کر کے مکہ سے کوفہ روانہ کیا۔
5 شوال المکرم 60ھ کو جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام شہر کوفہ میں پہنچے اور مختار ثقفی کے گھر قیام فرمایاجب کہ بعض روایات میں عوسجہ کے گھر میں قیام فرمایا اور بعض کے نزدیک ہانی بن عروۃ کے گھر میں مہمان ہوئے ۔
حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام نے بیعت کا سلسلہ شروع کیا اور روایات میں بیعت کرنے والے اعوان و انصار کی تعداد 18 ہزار اور تاریخی راوی مسعودی 12 ہزار اور دیگر روایات میں 18 ہزار کا عدد ملتا ہے ۔
اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام کو جناب مسلم بن عقیل نے اطمینان بخش خطوط روانہ کئے کہ واقعاً کوفہ کے حالات آپ علیہ السلام کے حق میں ہیں اور بنو امیہ کے ظلم سے نجات چاہتے ہیں ۔
خطوط کی روانگی کے بعد کوفہ کے والی نعمان بن بشیر نے حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کا احاطہ کرنا شروع کردیا مگر چونکہ اہل کوفہ آپ علیہ السلام کے ساتھ تھے تو بنوامیہ کے پیروکاران نے یزید لعین کو خطوط روانہ کئے کہ نعمان بن بشیر کو ہٹایا جائے کہ معاملہ کی سنگینی کو سلجھانے میں ناکام ہے جس کے جواب میں یزید ملعون نے ابن زیاد کو لکھا کہ یا جناب مسلم کو قتل کردے یا کوفہ سے بیرون کرے ۔
ابن زیاد نے آتے ہی چند قوانین کا نفاذکیا جن میں
1۔ تمام گھروں کی فردا فردا تلاشی لی جائے تاکہ جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کو برآمد کیا جاسکے۔
2۔ انقلاب کے حامی مسلمین کی وسیع گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا
3۔ آخر میں ہر وہ شخص جس نے جناب مسلم بن عقیل کی مدد کی اسے قتل کردیا جائے اور قتل کرنے والے کو بیش بہا انعام دیا جائےگا
اترك تعليق