قرآن کریم کی 29 سورتوں میں حروف مفردہ یا مرکب کا ذکر آیا ہے جو کہ سادہ حروب کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جن کی تلاوت سے کوئی خاص معنیٰ نہیں ملتا اور نہ کوئی لفظی دلالت کا ثبوت سامنے آتا ہے ایسے حروف و الفاظ کو حروف مقطعات کا نام دیا گیا ہے جو کہ چودہ حروف ہیں ان میں سے بعض ایک حرف پر مشتمل ہیں جیسا کہ(ص، ق، ن) لیکن ان میں سے بعض حرفین سے متکون ہیں جیساکہ(طہ، طس، یس، حم)اور تیسری قسم تین حروف پر مشتمل جیسا کہ (الم، الر، طسم)اور اسی طرح بعض چارحروف پر مبنی جیساکہ(المص، المر)اور آخر میں پانچ حروف پر مشتمل ہیں جیسا کہ(کہیعص، حم عسق)۔
ان حروف کو مقطعہ کہنے کا مقصد ان کو جدا جدا تلاوت کرنا ہے
ان حروف کی تفسیر میں علماء کی تحقیات اور جدوجہد پنہاں نہیں جہاں لغوی و اصطلاحی تفاسیر کے ساتھ تحقیقاتی تاویلات موجود ہیں جنہیں ایک موضوع میں ختم نہیں کیا جاسکتا مگر ایک اندازوں سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں سے بعض نے چند فارمولوں کو استعمال کرتے ہوئے اور مکرر حروف کو حذف کرنے کے بعد بامعنی ترکیب دی تو انہیں یہ عبارت ملی
"صراط علی حق نمسکہ"
"علی کا راستہ برحق ہے اسے تھامے رہو"
اگر ذاتی تفاسیر بھی کی جاتیں تو بھی شاید کوئی اس کے علاوہ جملہ نہیں بن پایا مثلا سنت کا راستہ حق ہے اسے تھامے رکھو اور اس کی مثل ۔
لیکن ہم مراجعت کریں تو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید میں موجود متشابھات کا علم ماسوائے اللہ تعالیٰ اور اس کے مصطفیٰ بندوں کے علاوہ کسی کو نہیں جو کہ ہمیں روایت میں ملتا ہے
یہاں تک کہ صاحب تفسیر المیزان نے لکھ دیا ہے کہ ان رموز کا علم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے درمیان ایک راز ہے جو کہ ہم سے پنہاں رکھا گیا ہےح
اترك تعليق