تعلیمی اداروں سے منسلک افراد کی اخلاقی و معاشرتی ذمہ داریاں

21 ربیع الثانی بمطابق 28 دسمبر 1440ھ نماز جمعہ صحن مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حضرت عباس علیہ السلام کے متولی علامہ سید احمد الصافی کی امامت میں ادا کی گئی جس میں تعلیمی اداروں سے منسلک افراد کے لئے اخلاقی و معاشرتی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔

یہ ایک اجتماعی موضوع ہے جس کی بنیادی مشکلات کے حل کا بہت زیادہ مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ۔ اقوام عام طور پر اپنے پاس موجود علمی ذخیرہ یا وسائل یا اس کی مانند دیگر اشیاء پر فخر کرتی ہے بعض قومیں اپنی تاریخ کو قابل فخر قرار دیتی ہیں جب کہ بعض اقوام اپنے موجودہ حال کو باعث افتخار سمجھتے ہیں ایک قوم کی حیثیت سے اگر طاقت اور خوشحالی کے وسائل کو جمع کرنا چاہیں تو وہ ہمارے پاس موجود ہیں لیکن ہم تہذیب و تمدن کے ترقی یافتہ مراکز میں ہیں۔ البتہ بعض مسائل ایسے ہیں جن کو حل کیے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا جس کے بعد وہ گھمبیر صورتحال اختیار کر گئے اور اس وقت ان کے حل کی اشد ضرورت ہے شاید وہ ذخیرہ کہ جس پر فخر کرنا ہم پر فرض ہے وہ نوجوان طبقہ ہے کیونکہ نوجوان ہی نشاط اور زندگی کی علامت ہوتے ہیں جو قومیں ہمیشہ متحرک ہوتی ہیں ان کے نوجوان بھی متحرک اور سر گرم ہوتے ہیں اور نوجوانوں کا وجود ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک زندہ ملک ہے نہ کہ بوڑھوں کا ملک ہے جس ملک میں نوجوان نہیں ہوتے وہاں پر ترقی کا وجود نہیں ہوتا اس کا مقصد عمر رسیدہ افراد کی دلشکنی کرنا نہیں ہے یہ انسان کی طبعی عمر کا حصہ ہے جس سے اسے گزرنا ہے لیکن جوانی کا حصہ وہ ہے کہ جس کے مثبت اور منفی حالات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ آج ہمارے نوجوان بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہیں جب کوئی شخص کسی عمومی جگہ یا بازار یا فیکٹریوں کی طرف نکلتا ہے تو اسے بہت سے نوجوان ایک خاص حالت میں دکھائی دیتے ہیں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان نوجوانوں کو قربانی کے لیے پیش نہ کریں۔ ہر وہ شخص جس کا کسی بھی حوالے سے اثر و رسوخ موجود ہے چاہے وہ باپ ہے یا ماں ہے یا اداری، اقتصادی، علمی یا سیاسی منصب پر بیٹھا ہوا کوئی شخص ہے یہاں ایک حقیقی صورت ہے کہ جس کو پڑھنا ہم سب پر ضروری ہے کہ آپ سب ہمارے نوجوانوں کو کس طرف لے جا رہے ہیں جب نوجوانوں کی سنہری عمر کی طرف آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان کی یہ سنہری عمر سکولوں اور کالجوں میں گزر جاتی ہے اس عمر میں بہت سی خوشگوار یا غیر خوشگوار یادیں ہوتی ہیں جب کوئی نوجوان تعلیم سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی عمر 22 سے 24 سال تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور وہ اپنے عین شباب کے ایام تعلیمی اداروں میں گزار چکا ہوتا ہے تعلیمی ادارہ ایک ایسی فیکٹری کی حیثیت رکھتا ہے جہاں پر انسانوں کی تخلیق ہوتی ہے جہاں انسانی تربیت دی جاتی ہے اور نوجوانوں کے لیے بھی اس فیکٹری سے گزرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ ہمارے پاس ان مراحل سے گزرنے کے بعد ایک امید کو دامن میں لیے ہوئے پہنچے

منسلکات