27 ربیع الثانی 1440ھ بمطابق 4 جنوری 2019ء کو نماز جمعہ صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبدالمہدی کربلائی کی امامت میں ادا کی گئی جس میں معاشرتی کردار کش عادات کے سد باب کو موضوع سخن قرار دیا ۔
معاشرے میں موجود کردار کشی کی عادت ہے کہ جس میں کسی کی معتبرشخصیت کو دوسروں کی نظر میں گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی شخص کا معتبر و با اعتماد ہونے سے کیا مراد ہے اور دوسروں کی نظر میں کس طرح سے کسی شخص کو معتبر و قابل اعتماد قرار دیا جاتا ہے کسی شخص کی معتبر شخصیت سے مراد اس کی معاشرے میں قدر و منزلت ہے یا پھر اس سے مراد دینی، اجتماعی، ثقافتی ،اخلاقی ،اقتصادی اور سیاسی مقام ہیں کہ جو کسی شخص یا معاشرے میں پائے جاتے ہیں یا پھر کسی بھی شخصیت سے مراد اس کا انسان ہونا ہے قطع نظر دیگر مقومات کے۔ اگر اس بات کی تشریح کرنا چاہیں تو یوں کہیں گے کہ ہر انسان کی دینی یا فکری یا ثقافتی یا اخلاقی یا اجتماعی بنیاد پر کچھ خصوصیات ہوتی ہیں اور یہی خصوصیات انسان کی اجتماعی قدرومنزلت کو جنم دیتی ہیں اور اسی قدرومنزلت کو ہم انسان کی شخصیت کا نام دیتے ہیں بعض دفعہ کسی انسان کے پاس کوئی خاص خصوصیات نہیں ہوتیں لیکن انسان ہونے کے ناطے اس کا معاشرے میں ایک مقام ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کردار کشی کا نشانہ کسی ایک انسان کو بنایا جاتا ہے اور کبھی ایک پورا گروہ اس کا نشانہ بنتا ہے اور یہ ایک خطرناک چیز ہے بعض دفعہ کوئی گروہ معاشرے میں دینی یا مذہبی یا اجتماعی یا فکری حوالے سے ایک تشخص کا حامل ہوتا ہے اور جب کسی گروہ کی کردار کشی کی جاتی ہے تو وہ ایک خطرناک اجتماعی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ انسان کی شخصیت کی اہمیت کی طرف آتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی اشرف مخلوق قرار دیا ہے اور اسے دوسری تمام مخلوقات سے افضلیت بخشی ہے اب یہ افضلیت ہر انسان کے پاس موجود ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی دین یا فکر سے ہو اللہ نے انسان کو نہ صرف اشرف مخلوق قرار دیا ہے بلکہ اس کی انسانیت کے ناطے اسے پوری دنیا کا تسخیر کنندہ بنایا ہے لہٰذا انسان کی ایک اجتماعی و معاشرتی مقام و منزلت کا ہونا ضروری ہے اور فطرتی طور پہ انسان معاشرے میں اپنی شخصیت و قدرومنزلت کا محتاج ہوتا ہے معاشی زندگی میں مادی اور معنوی طور پر انسان اپنی شخصیت و اجتماعی قدرومنزلت کی حفاظت کا محتاج ہوتا ہے۔ جب کہ کردار کشی اس فطرتی ضرورت کے الٹ ہے بعض اوقات انسان کے پاس اس کی انسانیت و خدائی کرامت کے علاوہ کسی مخصوص فکری اخلاقی یا دینی گروہ میں معتبر شخصیت ہوتی ہے ایسی صورت میں اسے مشہور و مقبول اور محترم شخصیت کے طور پر پہچان کے اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملات و امور کو طے کرے اور دوسرے لوگ اس کے ساتھ اپنے معاملات کو دیکھیں۔ کیا کوئی ایسا ہے کہ جو دوسرے لوگوں سے بےنیاز ہے دوسرے لوگوں سے رابطہ کرنے، شادی بیاہ کرنے، اقتصادی ،اجتماعی اور مالی امور میں مدد حاصل کرنے اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں تعاون حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی؟ ہم میں سے ہرایک دوسروں کا محتاج ہے تاکہ اپنی معنوی اور مادی زندگی سے متعلق ضروریات کو پورا کر سکے حتی کہ ہمیں اپنی ثقافت اپنی علم میں دوسرے انسانوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اگر آپ دوسروں کی نظر میں مقبول و مشہور اور محترم شخصیت ہیں تو آپ اپنی معتبر شخصیت کی حفاظت کریں گے اور معتبر شخصیت کا عنوان اگر ختم ہو جائے تو لوگ اس سے دور ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ نفسیاتی طور پر اور معاشرتی طور پر مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی مادی و معنوی احتیاجات کے لیے دوسروں کا تعاون حاصل نہیں کر پاتا لہٰذا اجتماعی قدرومنزلت کی حفاظت بہت ضروری ہے اور آج یہی خطرے سے دوچار ہے تو میرے شخصیت کی کیسے حفاظت کر سکتے ہیں. کسی شخص کو دوسروں کی نظروں میں گرانے اور کردار کشی کی عادت دینی، اخلاقی اور ثقافتی خلل کے وجود پر دلالت کرتی ہے بعض اوقات معاشرے کے صرف چند افراد اس خلل میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس کی قلت کی وجہ معاشرے میں اس عادت کا برا سمجھا جانا اور اس کے خلاف سخت وریہ اختیار کرنا ہوتی ہے۔ اور جب کہ بعض اوقات معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس خلل میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کی وجہ اس معاشرے کا اس بری عادت کے خلاف اقدام نہ کرنا اور اسے برائی شمار نہ کرنا ہے حالانکہ یہ عادت انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت سے خطرات کا موجب بنتی ہے بعض دفعہ اس کی وجہ سے لڑائی جھگڑے رونما ہوتے ہیں دوسروں کو نظروں میں گرانے اور کردار کشی کا کم سے کم نتیجہ نفسیاتی اضطراب، ڈپریشن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ آپ غور کریں کہ اگر ہم میں سے کسی کو معاشرے کی نظروں میں گرا دیا جائے لوگ دوری اختیار کرلیں اردگرد رہنے والے لوگ نفرت کرنے لگیں روز مرہ کے امور میں مدد کرنا چھوڑ دیں تو ہماری نفسیاتی حالت کیا ہوگی۔ اگر کسی دینی، اجتماعی، ثقافتی یا اقتصادی یا کسی بھی ایک پورے گروہ کو اجتماعی طور پر دوسروں کی نظروں میں گرا دیا جائے تو اس کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا یہ پورا گروہ دوسرے گروہوں اور انسانوں کے تعاون اور تعلق سے محروم ہو جائے گا خاص طور پر آج کے اس دور میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں کسی کی کردار کشی اور اس کے نتائج تیزی سے سامنے آتے ہیں۔ اگر کردار کشی کی عادت پورے معاشرے کو گھیر لے تو یہ ایک بہت بڑا خطرہ اور چیلنج بن جاتی ہےاور میری گفتگو کا مقصد اسی طرف اشارہ کرنا ہے۔ اگر انفرادی طور پر کوئی شخص کسی دوسرے کو معاشرے کی نظروں میں گرانا چاہتا ہے تو اس کا علاج نسبتا آسان ہے لیکن اگر ایک پورا گروہ یا ایک پورا معاشرہ اس خرابی میں مبتلا ہو جائے تو اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے اور یہ پورے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ روایات میں اس عادت کی مختلف الفاظ میں کافی مذمت کی گئی ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں ایک مسلمان کا خون، مال اور عزت و ناموس دوسرے مسلمان پر حرام ہے ایک دوسری جگہ احادیث میں مذکور ہے کہ مومن کی عزت و حرمت اللہ کے نزدیک کعبہ کی عزت و حرمت سے زیادہ ہے۔ ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ خانہ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے تو انہوں نے خانہ کعبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تم کتنے زیادہ پاکیزہ ہو اور تمہاری خوشبو کتنی زیادہ خوشگوار ہے تمہاری کتنی زیادہ عظمت ہے اور تمہاری عزت و حرمت کتنی زیادہ عظیم ہے...... ہمارے نزدیک خانہ کعبہ کی کتنی زیادہ عزت و حرمت ہے اور ضروری ہے کہ مومن کی عزت و حرمت ہماری نگاہوں میں خانہ کعبہ سے بھی زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں کہ مومن کی عزت و حرمت اللہ کے نزدیک کعبہ کی عزت و حرمت سے زیادہ ہے۔ امام رضا علیہ السلام نے سید عبد العظیم بن عبد اللہ حسنی کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا اے عبد العظیم میرے دوستوں کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا شیطان کو اپنی طرف آنے کا کوئی راستہ نہ دینا، انہیں گفتگو میں سچ بولنے کا حکم دینا اور جس چیز سے وہ بے نیاز ہیں اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے اور لڑائی جھگڑے کو چھوڑنے کا حکم دینا اور انہیں ایک دوسرے سے ملتے رہنے کا بھی حکم دینا اور یہ چیز میری قربت کا باعث ہے....... پھر آگے چل کے امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں.........ایک دوسرے کی کردار کشی میں مصروف نہ ہونا میں نے اپنے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ جو شخص بھی ایسا کرے گا میں اسے اپنے دوستوں سے نکال دوں گا اور خدا سے دعا کروں گا کہ وہ اسے دنیا میں شدید ترین عذاب دے اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا۔ ہم میں سے ہر ایک غور کرے کہ جب وہ بولتا ہے لکھتا ہے ویڈیو بناتا ہے تصویر بناتا ہے تو وہ اس کے ذریعے سے کتنے لوگوں کی کردار کشی اور دیگر انسانوں کی نظروں میں اسے گرانے کی نیت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام اعمال کو اپنے ریکارڈ میں رکھتا ہے لہٰذا یہ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اترك تعليق