یوں تو خود ارض کربلاء خود ایک ایسا زندہ معجزہ ہے کہ جہاں ہر سال دنیا کے مختلف کونوں سے چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے حاضری دیتے ہیں ۔
شعبہ الیکٹرانک میڈیا میں ایک ملاقات کے دوران اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شر ط پر ایک مومن نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کا ذکر یوں کیا کہ اسے جگر کے سرطان کی مرض تھی کافی علاج کرنے کے بعد بھی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور علاج معالجہ کے سلسلے میں اطباء کے ساتھ مراجعت کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ شاید ہی کوئی طبیب اسے اس مشکلات دنیا سے نجات دے سکے ۔
یہاں تک کہ ایک ڈاکٹر نے اسے اپنے کربلاء مقدسہ میں معائنے کے پروگرام کے سلسلے میں اسے چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کے موقعے پر ملنے کا وقت دیا ۔اس شخص کا کہنا ہے کہ میں کربلاء کی ایک سڑک پر چہل قدمی کے لئے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک زائرین امام حسین علیہ السلا م کی خدمات کے لئے ایک مختصر موکب کا انتظام کیا گیا ہے جس میں فقط ایک طشت میں کچھ کھجوریں اور ان پر تلوں کا تیل (عموما عراق میں اس طریقے سے کھجوریں پیش کی جاتی ہیں )
مخلوط تھا اور اس طشت کے پیچھے پانچ کے قریب اشخاص کھڑے تھے اور ان کے چہروں اور حالت زار پر فقر و فاقہ عیاں تھا مگر دل مودت اہلبیت علیہم السلام کے حق کی ادائیگی میں تھے ۔
میں ان کی طرف بڑھا اور دو دانے اٹھائے اور کھا لئے اور ہاتھوں پر لگے تل کو جسم میں درد کی جگہ پر مل دیا۔
اگلے دن جب ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے حیرانگی سے پوچھا کہ کس ڈاکٹر سے علاج کروایا کیونکہ تمہارا مرض بالکل زائل ہوگیا ہے مگر ڈاکٹر میرے جواب سے متحیر ہوگیا کہ میں نے کسی ڈاکٹر سے علاج نہیں کروایا ہے ۔
اس سے بات کے دوران مجھے یاد آیا کہ پچھلے دن ایک یہی کھجور کے تناول کے واقعے کے علاوہ کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا تو فورا ً ان اہل مواکب کی طرف گیا اور ان کی احوال پرسی کی انہوں نے بتایا کہ ہم ترکمان (عراق اور شام کے بارڈر کے علاقوں میں کافی تعداد میں ترکمانی اصل عراقی رہتے ہیں ) ہیں اور ہمارے پاس موکب میں زائرین امام مظلوم علیہ السلام کی خدمت کے لئے استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم نے اپنے کپڑے بیچ کر مختصر سازوسامان فاہم کیا تاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے حضور سرخرو ہوسکیں اور ان پیسوں سے کھجوریں اور تلوں کا تیل خریدا جن کے اس خلوص سے مجھ جیسے ناچیز کو شفاءملی ۔
اترك تعليق