حضرت امام رضا علیہ السلام کا سلسلہ امامت بیس سال تھا جن میں سے دس سال آپ علیہ السلام نے ہارون الرشید کے زمانے میں گزارے اور پانچ سال محمد الامین کے زمانے میں گزارے اور باقی پانچ سال عبداللہ مامون کے عہد حکومت میں گزارے ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام ہارون رشید اور امین کے زمانے میں مدینہ مقدسہ میں مقیم تھے مگر جب مامون کا عہد حکومت شروع ہوا تو اس نے خلافت کا دعوی کیا اور آپ علیہ السلام کو خراسان بلایا تاکہ آپ کی شخصیت کے پیش نظر خطرہ جس کو وہ درک کر رہاتھا اور آپ علیہ السلام کے بعید ہونے کی وجہ سے آپ کو خراسان بلا کر اپنی کڑی نگرانی میں رکھنا چاہتا تھا تاکہ اس خطرے کو جو اس کے پیش نظر تھا سے مطمئن رہ سکے ۔
اور ایسے موارد جن سے وہ مطمئن رہ سکتا تھا ان میں سے ان میں سے ایک امر اس نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو اپنی حکومت میں شامل کرنے کا اقدام تھا تاکہ علویوں کے حکومت پر خروج کو اس بہانے سے روک سکے کہ خود شخصیت امام علیہ السلام اس میں رکن ہیں
اور امام علیہ السلام نے ایک حد تک قبول کیا کہ آپ علیہ السلام جانتے تھے کہ اگر یہ قبول نہ کیا تو آپ علیہ السلام کی جان اور شیعان آئمہ علیہ السلام کی جان کو خطرہ لاحق ہوگا اس لئے آپ علیہ السلام نے بے گناہ جانوں کی حفاظت کے لئے ولایت عہدی قبول کیا اور مستقبل میں آنے والے اس شبہہ کو رد کرنے کے لئے بھی تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ جب پیش کش کی گئی تھی تو قبول کیوں نہ کی؟
اور آپ علیہ السلام کا قبول کرنا بھی ایسا تھاکہ جیسے عباسیوں کے درمیان نافذ کرنے والے کی حیثیت سے ہیں اور اس لئے عباسی اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے تھے کہ آپ علیہ السلام صاحب اختیار ہیں جبکہ وہ کسی حالت میں بھی اس کو قبول نہیں کرتے تھے ۔
اور یہی فعل امام علیہ السلام اس شبہ کو بھی دور کرنے کے لئے کافی تھا کہ اہل بیت علیہم السلام نے صرف فقط دینی لحاظ سے بلکہ دنیاوی حکومت میں بھی اپنی شخصیت کو اہل نظر کے لئے عیاں کیا کیونکہ آپ شیعان اہلبیت علیہم السلام کی مصلحت کو جانتے ہیں ۔
اسی لئے جب حضرت امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ آپ کا ولایت عہدی میں کیا کام؟
پس امام علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرا ولایت عہدی میں ہونا ایسے ہی ہے جیسے میرے جد (امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام )کا شوریٰ میں ہے ۔
اترك تعليق