حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام کو امیرالمؤمنین کا لقب کیوں نہیں دیا گیا کیونکہ یہ لقب فقط حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام سے خاص ہے جس پر (الکافی) میں حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو بھی ماسوائے حضرت علی علیہ السلام کے امیرالمؤمنین ہونے کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب ہوگا۔
اور چونکہ حدیث میں واضح الفاظ میں ہے کہ اس سے پہلے اورنہ کبھی آئندہ مستحق لقب امیرالمؤمنین ہے اور یہ ایسی من گھڑت احادیث کو رد کرتا ہے جو کہ دیگران کے امیرالمؤمنین ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور اس لقب کے ساتھ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے لاتعداد مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کیا ہے کہ جن میں اے علی ! تم امیرالمومنین وامام المسلمین ہو (امالی شیخ صدوق)
اور کراجکی نے اپنی کتاب (کنز الفوائد) میں نقل کیا ہے کہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ نے تکرارا مجممع عام میں لوگوں کے سامنے فرمایا کرتے تھے کہ اے علی ! آپ مؤمنین کے امیر اور متقین کے امام ہیں
اور اسی طرح جب خلیفہ ثانی کے بعد شرکاء شوریٰ سے سوال کیا کہ کیا تم میں سے کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنی زندگی میں امیرالمؤمنین کے لقب سے مخاطب کیا؟ سب نے نفی میں جواب دیا (جسکا ذکر محمد بن جریر الطبری نے اپنی کتاب المسترشد میں کیا ہے)
علاوہ ازیں حافظ ابو نعیم الاصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : اے انس! میرے لئے وضو کا پانی لاؤ اس کے بعد آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا اے انس ! اس دروازے سے اب جو بھی پہلا شخص داخل ہو گا وہ امیر المؤمنین اور سید المرسلین اور خاتم الاوصیاء ہوگا
اور اس کلام کے بعد حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام داخل ہوئے
اور اسی طرح لقب امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ حتی کہ دیگرآئمہ اہلبیت علیہم السلام چاہے وہ آپ کی اولاد ہی کیوں نہیں ہیں پر لقب امیر المومنین جائز نہیں ۔
اترك تعليق