صلح حسنی اور خروج حسینی کے شرعی اور صحیح ہونے کا جواز

شبہہ

حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی حالانکہ ان کے پاس افواج اور اصحاب کی کثرت تھی جو کہ مقابلہ کر سکتے تھے جبکہ امام حسین علیہ السلام کے پاس اصحاب تعداد میں کم تھے اور ان کے لئے مصالحت کا راستہ آسان تھا اور متوفر تھا ۔

جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک حق پر ہے کیونکہ دونوں کا حق پر ہونا دو نقیضوں کی جمع کی مانند ہے جو کہ محال ہے ۔ اور اسی طرح اگر دونوں میں سے ایک حق کے خلاف ثابت ہوجائیں تو عصمت باطل ہو جاتی ہے اور عصمت کے بغیر امامت باطل ہوجاتی ہے کیونکہ مذہب شیعہ میں  امامت کے خصائص میں عصمت اہم جزو ہے اور غیر معصوم امام نہیں ہوسکتا اور جب امامت باطل ہوگئی تو ان کی اصل امامت باطل ہوجائیگی کیونکہ شیعت کے نزدیک آئمہ پر نص وارد ہے جو کہ تشیع کی اصل ہے اور اگر یہ اصل باطل ہوگئی تو تشیع کاملا باطل ہوجائیگی ۔

جواب شبہہ :

اول : یہ اشکال ناقص ہے بلکہ امام حسن علیہ السلام کی فوج میں سے کئی قیادیوں نے آپ علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا تھا

اور یہاں تک کہ خود حضرت امام حسن علیہ السلام کو معاویہ کے حوالے کرنے کی سازش طے پا چکی تھی اور جب امام علیہ السلام کو یہ علم ہوا تو آپ علیہ السلام کے پاس دو اختیارات تھے کہ یا تو ذلت کے ساتھ لوگ آپ علیہ السلام کو معاویہ کے حوالے کریں یا کرامت کے ساتھ صلح کر لیں تب امام علیہ السلام نے دوسرا اختیار چنا مگر امام حسین علیہ السلام نے اپنے حتی کہ قلیل اصحاب کے ساتھ مگر ان کے دل چٹان کی مانند اپنے ایمان پر قائم تھے کے ساتھ خروج کیا جنہوں دنیا کے سامنے بہادری اور شجاعت کی داستانیں رقم کیں ۔

ثانی :

یہ مورد کہ اجتماع نقیضین ہے بالکل غلط ہے بلکہ صلح امام حسن علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی حدیث میں وارد ہے " میرا یہ بیٹا سید اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اسلام کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح قرار دے گا ۔

اسی لئے حضرت امام حسن علیہ السلام اپنی صلح کے ساتھ حق پر تھے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے صلح حدیبیہ کے مقام پر مخصوص مصالحت کے ساتھ صلح کی ۔

اور اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کا انقلاب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی احادیث مبارکہ سے مشروع ہے " حسن اور حسین علیہما السلام جوانان جنت کے سردار ہیں "

اور فرمایا "حسین علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں حسین علیہ السلام سے ہوں "

المناوی اپنی کتاب فیض تقدیر میں لکھتے ہیں : " حسین مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں " کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ جانتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جو ہونے والا ہے اسی لئے فرمایا کہ ہم دونوں مانند ایک ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ جنگ کی مانند قرار دیا اور تاکید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا " اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے جو امام حسین علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں " پس کہ محبت حسین علیہ السلام محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ ہے ۔

یہاں تک کہ فیض القدیر میں بیان کیا گیا ہے کہ جس قسم کی نصرت امام حسین علیہ السلام چاہیں مسلمانان دین پر واجب ہے اطاعت کریں ۔ جس کو علامہ شوکانی نے اپنی کتاب " درالسحابۃ فی المناقب القرابۃ والصحابۃ " میں سند کے ساتھ ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : میرا یہ بیٹا عراق کی سرزمین کربلامیں قتل کیا جائیگا پس جو اس حال میں اس کو پہنچے اس کی مدد کرے ۔

پس کہاں یہ خروج حسینی اور صلح حسنی شریعت کے خلاف اور تناقض کے ضمن میں قرار پائی ۔