انقلاب آفرین اور پاکیزہ سرچشمہ عصمت

اے نور و جان محمد! تیرا وجود اپنے جدامجد کی طرح تمام خوبیوں کا سر چشمہ،تمام خوشبوؤں کا معدن اور تمام روشنیوں کا سراپا ہے۔اے ہم نام و ہم نشان رسول اسلام ! تیری جدائی عزیزترین معشوق کے فراق سے زیادہ شاق،تیرا انتظار طلوع آفتاب سے زیادہ اجلا اور امید افزا اور تیری آمد تمام بہاروں سے زیادہ پر بہار اور تمام ترانوں سے زیادہ طرب انگیز ہے۔یقینا" تیرے ظہور کا دن شب قدر سے زیادہ پر نور،بلند اور عظیم ہوگا۔شب قدر اگر ہزار مہینوں سے بہتر ہے تو تیرا روز ظہور ہزار برسوں سے زیادہ منور ہوگا۔خدایا! مہدی موعود کے ظہور کا وہ نورانی دن دیکھنا کیا ہمارے نصیب میں بھی ہوگا ؟

 ہمارا سلام ہو تجھ پر اے نور ازل سے منور بلند ترین ستارۂ آرزو۔ہمارا سلام ہو تجھ پر اے ساز وحدت پر چھیڑے گئے حسین ترین نغمۂ انتظار۔سالہا سال اور برسہا برس سے ہم دنیا کی تاریکیوں میں غرق ہیں اور ایمان و یقین کی نگاہیں بچھائے تیرے ظہور کی چاپ کے منتظر ہیں۔ تیری غیبت کا یہ دور آدمیت و انسانیت کے قحط کا دور ہے۔دنیا نان و نان و نمک کی بھوک اور نام و نمود کی تشنگی میں مبتلا ہے۔ دنیا والے تعیش و تجملات کی اشیاء کے عاشق ،مشینی رفتار سے پٹریاں بدلنے والے افکار و نظریات کے گرویدہ ہیں،زندگیاں یکسانیت کی مریض اور شہوانیت کی اسیر ہو چکی ہیں۔قدم روز بروز ناتواں،دل پتھر کی طرح سخت،آنکھیں آئینوں کی طرح بے حس آرزوئیں یتیم،فریادیں بانجھ اور آوازیں گونگی ہوتی جا رہی ہیں۔ شب دن سے زیادہ بیدار اور محرومی ظلم و ستم سے زیادہ پائیدار ہو گئی ہیں۔لمحے سانسوں پر بھاری، صدائیں نیم مردہ،آنکھیں خوف زدہ،دیواریں نا امن اور گھر اجنبیوں کا اڈہ بن گیا ہے۔اور ارد گرد،کسی قبرستان کی مانند سناٹا چھایا ہوا ہے۔ایسے ماحول میں،تیرے ایران کی فریادیں،نعرے اور جہادو استقامت کی آوازیں طاغوتی طاقتیں گلے میں ہی گھونٹ دینا چاہتی ہیں۔کون محروموں،مظلوموں اور بے بس و لاچار دینداروں کو سہارا دے۔تیرے سوا کون ہے،ہم کس کو آواز دیں، کیا اب بھی پردۂغیبت اٹھانے کی ساعت نہیں آئی ہے۔ کیا اب بھی دنیا سے ظلم و ستم اور کشت و خونریزی کےخاتمے کا وقت نہیں آیا ہے۔کیا اب بھی عدل و انصاف کی برقراری کے متعلق وعدۂ الہی کے پورے ہونے کے خوشگوار لمحات نہیں آئے ہیں۔ حکومت محمدی (ص) کی برقراری اور حکمت علوی (ع) کی پائیداری کے دن کب دیکھنے کو ملیں گے؟فرزند زہرا(س) ! تیری حکومت تمام انبیا ء(ع) کی مشقتوں کا خواب اور تیری ولایت تمام ائمہ(ع) کی قربانیوں کے حساب کا دن ہے۔کیا کوئی ہاتھ ہے جو تیرے ظہور کا پرچم بلند کر نے کی آرزو نہ رکھتا ہو،کیا کوئی آنکھ ہے جو تیرے ظہور کا زمانہ دیکھنے کے لئے اشک فشاں نہ ہو،آیا کوئی دل ہے جس میں تیرے ظہور کے انتظار کی دھڑکنیں نہ اٹھتی ہوں، آیا کوئی سر ہے جس میں تیرے ظہور کے مشاہدہ کا سودہ نہ پایا جاتا ہو،آیا کوئی دن ہے جو تیرے شوق زیارت میں شام سے ہمکنار نہ ہوتا ہو،آیا کوئی رات ہے جو تیرے شوق دیدار میں طلوع آفتاب کی منتظر نہ رہتی ہو، آیا کوئی گلی ہے جہاں مہدی موعود کے (ع) انتظار کے قمقمے نہ جل رہے ہوں اور آیا کوئی گھر ہے جہاں عسکری (ع) کے مولود کا جشن چراغاں نہ برپا ہو؟ فرزند رسول (ص) امام محمد تقی علیہ السلام کی دختر گرامی،امام علی نقی علیہ السلام کی بہن حکیمہ خاتون بیان کرتی ہیں "ایک دن اپنے بھتیجے امام حسن عسکری کے گھر مہمان تھی،رخصت ہونے لگی تو امام علیہ السلام نے فرمایا،پھوپھی! آج کی رات آپ یہیں میرے یہاں ٹھہریں، آج خدا کی آخری حجت کی ولادت ہونے والی ہے۔میں نے حیرت کے ساتھ عرض کی: مگر نرجس خاتون کے یہاں تو اس طرح کے آثار نظر نہیں آتے۔امام نے فرمایا : جی ہاں! خداوند عالم اپنی حجت دنیا میں بھیجنے کے لئے وقت ضرورت اسی طرح کا اہتمام کرتا ہے۔حضرت موسی (ع) کی ماں کے یہاں بھی آثار حمل نہیں تھے،فرعون کی تمام بندشوں کے با وجود حضرت موسی (ع) دنیا میں آئے اور فرعونیوں کو خبر بھی نہ ہو سکی،خدا نے دشمنان محمد و آل محمد علیہم السلام کےشر سے اپنی آخری حجت کی حفاظت کے لئے یہ اہتمام کیا ہے۔جناب حکیمہ کہتی ہیں : میں امام کی فرمائش پر گھر میں رک گئی اور بے چینی سے اس مبارک و مسعودگھڑی کا انتظار کرتی رہی، نماز شب تمام کرچکی تھی لیکن ابھی تک حمل کے آثار ظاہر نہیں تھے۔دل میں اضطراب پیدا ہوا تو امام علیہ السلام کی آواز آئی : پھو پھی پریشان نہ ہوں جو کچھ میں نے کہا ہے اس کے ظہور کا وقت قریب آرہا ہے،تھوڑی دیر بعد،نرجس خاتون بھی خواب سے بیدار ہوئیں وضو کیا،نماز شب ادا کی اور آکر بستر پر لیٹ گئیں کہنے لگیں پھوپھی مجھے کچھ درد کا احساس ہو رہا ہے، میں مسئلہ کی طرف متوجہ ہو گئی اور تسکین دیتے ہوئے کہا : بیٹی گھبرانے کی بات نہیں ہے خدا نے تم کو اپنی آخری حجت کی ماں بننے کا شرف عطا کیا ہے۔امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا : پھوپھی سورۂ "انا انزلنا ہ " کی تلاوت فرمائیے،میں نے سورۂ قدر پڑھنا شروع کی محسوس ہوا بطن مادر میں بچہ میرے ساتھ تلاوت کر رہا ہے یکا یک میرے اور نرجس کے درمیان نور کا ایک پردہ حائل ہو گیا ۔میں نے امام علیہ السلام کو آواز دی،امام حسن عسکری (ع) نے پر سکون رہنے کی فرمائش کی۔پردہ چھٹا تو میں نے دیکھا زمین پر ایک چاند سا بچہ بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہے۔سجدے سے سر اٹھا کر بچے نے کلمۂ شہادتین زبان پر جاری کئے اور تمام ائمہ (ع) کی امامت کی گواہی کے بعد کہا : خدایا،اپنے وعدہ کو پورا کر دے،اپنے امر کی تکمیل فرما اور میرے ذریعے زمین کو عدل و انصاف سے معمور کر دے۔بچے کے داہنے شانے پر " جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا،کانقش تھا اور زبان پر یہ آیت تھی : ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ۔۔۔"۔امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے جد امجد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق خدا کی آخری حجت کا نام بھی اپنے جدامجد کی طرح محمد (ع) اور کنیت ابوالقاسم قرار دی۔اور یہ امام مہدی (ع) کی خصوصیات میں سے ہے۔ہمارے پیش نظر ہے کہ اس مبارک و مسعود یوم ولادت کی مناسبت سے پورے عالم اسلام میں سروروشادمانی کا ایک جشن برپا ہے،جگہ جگہ گھروں،سڑکوں اور مسجدوں میں چراغانی کے اہتمام نے تاروں بھرے آسمان کو بھی اپنی رونق آرائیوں سے شرمندہ کر رکھا ۔ مذہب اسلام کی مقدس کتابوں میں شب برات ایک بڑی محترم برکت و سعادت والی رات ہے اور س‍چ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے چشم تصور میں جتنا مسرت آگیں چہرہ اس رات کا ہے،قدر کی رات کو بھی وہ قدر میسر نہیں ہوپاتی۔شب برات کو احادیث میں لیلۃ البراءت،لیلۃ السمک،لیلۃالرحمۃ،لیلۃ المبارکہ یعنی آتش جہنم سے آزادی دلانے والی رحمت و برکت کی رات یا صحیح تلفظ کے ساتھ شب براءت اور عام زبان میں شب برات یا شبھ رات بھی کہتے ۔معتبر حدیثوں میں ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) یہ پوری رات بقیع کے قبرستان میں گزارتے اور نمازو دعا میں مشغول رہتے تھے اسی لئے اس شب میں قبرستان جانا اور عبادت و دعا میں مشغول رہنا برکت و ثواب کا باعث ہے۔چونکہ اسی شب میں امام مہدی (ع) کی ولادت بھی ہوئی ہے اس لئے یہ شب" نور علی نور " ہو گئی ہے۔اہل ایمان کا جوش محبت اسی لئے دو آتشہ ہو جاتا ہے۔علامہ زمخشری نے اس شب کی 5 خصوصیات بتائی ہیں۔1 روزی مقرر ہوتی ہے۔2 حیات تقسیم ہوتی ہے۔3 عبادت ثواب کثیر کی حامل ہے۔4 رحمت کا نزول ہوتا ہے۔5 اور یہی وہ رات ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کو شفاعت کا حق حاصل ہوا ہے اور غالبا"اسی مناسبت سے لوگ اپنے لئے اور اپنے مرنے والوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے۔امام مہدی (عج) کا چہرہ گندم گوں، بھنویں مثلِ کمان کھینچی ہوئیں، آنکھیں سیاہ اور جاذب نظر، پیشانی اونچی اور روشن، ہڈیوں کی ساخت استوار و محکم، عبادت اور شب زندہ داری کے وجہ سے رخسار زردی مائل اورکم گوشت، جسم کے جوڑوں میں استحکام اور تناسب، شکل دلربا، اور جالب نظر، بزرگی و ہیبت و حیا میں نظریں ڈوبی ہوئیں اورچہرے سے قائدانہ لیاقتیں جھلگتی ہوں گی، نظریں انقلاب آفرین، آپ کی صدای حق پرست عالمگیر اور آپ کا جوش ولولہ طوفان بدوش ہوگا۔

جس طرح کوئی عقاب اپنے پروں کو کھولے سرنہوڑائے آسمان سے نشیب کی طرح اترتا ہے، آپ (عج) اسی طرح خداوند متعال کی عظمت و جلالت کے سامنے فروتن اورمنکسّرہوں گے ۔ آپ (عج) سرا پا وجود، میں عظمت الہی جلوہ فگن اوراس کی بزرگی و عظمت متجلی ہوگی ۔ آپ (عج) عدالت کا پاک و پاکیزہ سرچشمہ ہوں گے کہ ذرہ برابر کسی کا حق ضایع نہ ہونے دیں گے۔خداوند حکیم آپ (عج) کے ہاتھوں دین اسلام کو عزت و عظمت سے نوازے گا آپ (عج) دنیا کی فنا پذیر چیزوں سے بے پرواہ ہوں گے اور خدا کے نہایت قریب ہونے کے باوجود بھی اس مقام پر مغرور نہ ہوں گے ۔

آپ(عج) مجد و بزرگی، سکون قلب اور وقار و عزت کے مالک ہوں گے لباس دبیز اور کھردار، آپ(عج) کی غذا اپنے جدا امجد علی بن ابی طالب (عج) کی طرح جو کی روٹی اور ضبط نفس علم و حلم اور برد باری میں تمام لوگوں پر فوقیت رکھتے ہوں گے ۔آپ (عج) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے ہم نام،لقب مہدی، بقیتہ اللہ، منتظر اور سیرت و کردار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی مثال ہوں گے ۔ آپ (عج) کا وجود گرامی دنیا والوں کے لئے مشعل ہدایت اور پوری حیات نیکیوں اورخوبیوں کا سرچشمہ ہوگی۔ رفتار و عمل بوقتِ قیام حضرت علیہ السلام دوستی و یگانگت کی ایسی فضا ہوگی کہ لوگ بلا روک ٹوک اپنی ضروتوں کے مطابق پیسے و غیرہ ایک دوسرے کی جیب سے نکال لیا کریں گے ۔ آپ (عج) کے زمانے میں دلوں سے کینے صاف ہوجائیں گے اور روی زمین کا چپہ، چپہ امن اور آسایش کی سانس لے رہا ہوگا۔

آپ (عج) سخاوت میں بے نظیر، بلاتکلف لوگوں کو عطا کرنے والے ہوں گے لیکن اپنے کار گزاروں اور عاملینِ حکومت کی نسبت حق و انصاف کی خاطر نہایت سخت ہوں گے، کمزوروں بی کسوں، حاجتمندوں، اورمظلوموں کے لئے اس طرح رحمدل اور مہربان ہوں کے جیسے بنفس نفیس مسکینوں اور فقیروں کے دہن میں شِیر و عسل ڈالتے ہوں گے۔ آپ (عج) کی زندگی قناعت، زہد و پارسایی میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کی حیات طیّبہ کا عملی نمونہ ہوگی۔

 

 

منسلکات