حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب خداوند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلق کرنے کا ارادہ کیا تو جناب جبرائیل کو زمین کے مختلف حصوں سے مٹھی بھر خاک لینے بھیجا تاکہ ان سے حضرت آدم علیہ السلام کو خلق کر سکے ۔
جبرائیل نے جیسے ہی زمین سے خاک اٹھانی چاہی زمین نے سوال کیا کہ آدم کی خلقت سے خدا کا کیا مقصد ہے؟
تو جبرائیل نے کہا : مقصد یہ ہے کہ ان کو اور ان کی ذریت پر عبادت کی ذمہ داریاں ڈالی جائیں اور ان میں سے جو اطاعت کرے اسے ہمیشہ کے لئے جنت میں رکھا جائے اور جو ان میں سے نافرمانی کرے اسے تا ابد جہنم کی آگ میں عذاب دیا جائے۔
زمین نے جبرائیل سے یہ باتیں سنیں تو اسے خدا کے حق کی قسم دے کر کہا کہ میرے وجود سے خاک نہ لے جاؤ کیونکہ مجھ میں خدا ئے تعالی کے عذاب کی طاقت نہیں ہے ۔
لہذا جبرائیل علیہ السلام زمین سے کچھ اٹھائے بغیر واپس پلٹ آئے اور اللہ تعالی سے عرض کی زمین نے مجھے تیری بزرگی اور عزت کی قسم دی لہذا میں نے اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا۔
خدائے تعالی نے میکائیل اور اسرافیل کو بھی خاک لانے پر مامور کیا تو زمین نے ان کو بھی قسم دی کہ کچھ نہ اٹھائیں اور وہ بھی اسی طرح بغیر کچھ اٹھائے پلٹ آئے ۔
اللہ تعالی نے جناب عزرائیل کو خاک لانے پر مامور کیا عزرائیل جب زمین سے خاک اٹھانے لگے تو زمین نے انہیں خدا کی بہت قسمیں دیں کہ وہ اس میں سے کچھ نہ اٹھائیں لیکن انہوں ے ایک نہ سنی اور کہا : میں اپنے خدا کے حکم کی مخالفت سے ڈرتا ہوں اور تیری آہ و گزاری کی وجہ سے ہرگز اپنے خداوند کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرونگا لہذا مختلف مقامات سے خاک اٹھائی اور اللہ تعالی نہ ان کی حوصلہ افزائی کی اور فرمایا : چونکہ تو نے خاک لانے میں میرے حکم کی تعمیل کی ہے اور زمین کی فریاد پر اس پر رحم نہیں کیا ہے لہذا اولاد آدم کی روح قبض کرنے پر تجھے مامور کرتا ہوں تاکہ کسی پر رحم نہ کھائے اور ماں کی گود میں موجود شیرخوار بچے کی روح کو قبض کرسکے اور ماں اور اس کے بچوں میں جدائی ڈال سکے ۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام نے عرض کی ۔ اے اللہ! مجھے اس خوفناک اور دردناک عمل کیوں سونپا ہے؟ کہ اس کی وجہ سے مخلوقات میں سے مجھے کوئی محبت نہیں کرے گا
تو جواب ملا کہ کوئی بھی کسی کو یہ نہیں کہے گا کہ فلان عزرائیل کے سبب سے مرا بلکہ کہیں گے کہ دل کا دورہ یا حادث وغیرہ کی موت سے وفات پا گیا
اترك تعليق