حضرت السیدہ زینب (س) کی قبر مطہر کے بارے میں تین احتمالات پائے جاتے ہیں: مدینہ منورہ، شام اور قاہرہ۔
اکثرسیرت نویسوں نے اس مقدس خاتون کے مرقد کو " قاہرہ" اور"شام" بتایا ہے۔
یحیی بن حسن حسینی عبیدلی اعرجی نے کتاب" اخبار زینبیات" میں اور بعض دوسرے سیرت نویسوں نے کہا ہے کہ: حضرت زینب (س) نے مصر میں وفات پائی ہے۔ علامہ حسنین سابقی نے اپنی کتاب" مرقد عقیلہ زینب" میں اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ حضرت زینب (س) کا مرقد شام اور دمشق میں واقع ہے۔
بعض دوسرے مصنفوں، جیسے: ڈاکٹر شہیدی اپنی کتاب " زندگانی فاطمہ زہراء (س)" میں ان کا مرقد شک و شبہہ کی صورت میں شام اور مصر بیان کیا ہے۔
جنھوں نے یہ کہا ہے کہ حضرت زینب(س) کا مقبرہ مصر میں واقع ہے، انھوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ واقعہ کربلا کے اسراء کا کاروان شام سے مدینہ آنے کے بعد، مدینہ کے حالات نا آرام ہوئے۔
حاکم مدینہ نے یزید کو ایک خط لکھا اور اس خط میں مدینہ میں رونما ہوئے حالات اور لوگوں کی بیداری اور مقاومت کے سلسلہ میں حضرت زینب (س) کے رول کی وضاحت کی۔ یزید نے جواب میں لکھا کہ زینب (ع) کو مدینہ سے نکال دیں۔ حاکم مدینہ اصرار کرتا تھا کہ حضرت زینب (ع) مدینہ سے نکلیں ۔ بالآخر زینب (ع) نے مدینہ سے مصر ہجرت کی اور وہاں پر حاکم مصر اور مصر کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔ حضرت زینب (ع) نے تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد 15 رجب سنہ 63ھ ق کو غروب کے وقت قاہرہ میں وفات پائی۔
لیکن جنہوں نے یہ کہاہے کہ حضرت زینب (ع) کا مقبرہ شام میں ہے، انھوں نے حاکم مدینہ کی اس داستان کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ حضرت زینب (ع) شام چلی گئیں اس سلسلہ میں ایک اور روایت نقل کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ: جب سنہ 62ہجری قمری میں یزدیوں کے توسط سے مدینہ میں واقعہ حرّہ اور غارت اور قتل عام پیش آیا تو، عبداللہ بن جعفر، نے اپنی شریک حیات حضرت زینب (ع) کے ہمراہ شام میں ایک مزرعہ (کھیت) کی طرف ہجرت کی تاکہ حضرت زینب (ع) کا غم تجدید نہ ہوجائے اور تھوڑا سا غم و اندوہ کم ہوجائے، اس کے علاوہ مدینہ میں طاعون کی بیماری پھیلی تھی اس لئے اس سے بچنے کے لئے عبداللہ بن جعفر حضرت زینب (ع) کے ہمراہ شام چلے گئے اور وہاں پر سکونت اختیار کی، حضرت زینب (ع) بیمار ہوئیں اور وہیں پر وفات پائی۔ زینب کبری (ع) کے بعد، ام کلثوم، حضرت علی (ع) کی دوسری بیٹی جو فاطمہ زہراء (ع) کے بطن سے نہیں تھیں اور ان کا نام زینب صغری تھا، زینب کبری کے نام سے مشہور ہوئیں اور وہ مصر چلی گئیں۔
اگرچہ یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر کہاں پر ہے، پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ: جو زیارت گاہیں اور اماکن اس مقدس خاتون سے منسوب ہیں، وہ خدا کے ذکر و توجہ اور انسان ساز اور شہیدوں اور اہل بیت (ع) سے پیوند کی جگہیں ہیں۔ سب اس آیہ شریفہ:" یہ چراغ ان گھروں میں ہے جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔" کے مصداق ہیں۔ یہ جگیں اگرچہ صرف ان سے منسوب ہی ہوں، خدا کے ذکر اور توجہ اور انسان سازی اور شہیدوں اور اہل بیت (ع) سے پیوند کی جگہیں ہیں۔ اہل بیت کی دفن کی جگہ جہاں پر بھی ہو، یہ اماکن ان کی یاد کو تازہ کرنے والے ہیں اور یہ یادیں عاشقوں کے دلوں میں قرار پاتی ہیں۔
اترك تعليق