رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت اور اس پر ملنے والے اجر و ثواب کے بارے میں بہت سی احادیث اور روایات موجود ہیں۔ اگرچہ بہت سی تفصیلی روایات آئمہ معصومین علیہم السلام (بالخصوص امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ) سے نقل ہوئی ہیں، لیکن ان سب کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور امام حسینؑ سے آپ کی بے پناہ محبت ہے۔
رسول اکرم (ص) کی احادیث کی روشنی میں زیارتِ امام حسین (ع) کی تاکید اور ثواب کو درج ذیل نکات میں سمجھا جا سکتا ہے:
۱. محبت کا اظہار اور اجرِ رسالت
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی رسالت کا اجر ان کے قریبیوں (اہل بیت) سے محبت کو قرار دیا ہے۔
قُل لَّاأَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًاإِلَّاالْمَوَدَّةَفِي الْقُرْبَىٰ
ترجمہ: "(اے رسول) کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے میرے قریب ترین رشتہ داروں (اہل بیت) سے محبت کے۔" (سورۃ الشوریٰ، آیت 23)
امام حسین علیہ السلام، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے عزیز ترین اہل بیت میں سے ہیں۔ لہٰذا، ان کی زیارت کرنا، ان کے مزار پر حاضر ہونا، اور ان کی قربانی کو یاد کرنا درحقیقت اسی "مودت فی القربیٰ" کا عملی اظہار ہے اور اجرِ رسالت کی ادائیگی کا ایک ذریعہ ہے۔
۲. حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی یہ مشہورِ زمانہ حدیث زیارتِ امام حسین (ع) کی اہمیت کی بنیاد ہے:
حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ،أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا
ترجمہ: "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔"
اس حدیث کا دوسرا حصہ ("میں حسین سے ہوں") انتہائی گہرا مفہوم رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسلام کا مستقبل، دینِ محمدی کی بقا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا مشن حسینؑ کی قربانی سے وابستہ ہے۔ لہٰذا، امام حسینؑ کی زیارت کرنا دراصل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے مشن اور ان کی ذات سے تجدیدِ عہد کرنا ہے۔ جو شخص امام حسینؑ کی زیارت کرتا ہے، وہ گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے پاس حاضر ہو کر ان سے اپنی وفاداری کا اعلان کرتا ہے۔
۳. نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا خود گریہ کرنا اور خاکِ کربلا
متعدد مستند روایات میں مذکور ہے کہ جب امام حسینؑ بچے تھے، تو جبرائیل امین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو کربلا کی مٹی لا کر دی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو آپ کے اس بیٹے کی شہادت کی خبر دی۔ یہ خبر سن کر اور اس مٹی کو سونگھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے گریہ فرمایا۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا اپنے نواسے کی شہادت سے پہلے ان پر گریہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی یاد منانا، ان کے مصائب کو یاد کرنا، اور ان کی قربان گاہ (کربلا) کی طرف جانا خود سنتِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ) ہے۔ یہ عمل اللہ کے نزدیک اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی خبر نبی آخر الزماں کو دی گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس پر حزن کا اظہار فرمایا۔
۴. زیارت کا عظیم ثواب
آئمہ معصومین (ع) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے منسوب کرتے ہوئے زیارت امام حسین (ع) کے بے شمار فضائل اور ثواب بیان فرمائے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
گناہوں کی معافی: امام حسین (ع) کی عارفانہ زیارت (ان کے حق اور مقام کو پہچانتے ہوئے) کرنے والے کے پچھلے اور اگلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔حج و عمرہ کا ثواب: بعض روایات کے مطابق، امام حسین (ع) کی ایک زیارت کا ثواب کئی حج اور عمرہ کے برابر ہے۔ خاص طور پر شبِ قدر، عیدین، اور یومِ عرفہ پر زیارت کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔رزق اور عمر میں اضافہ: زیارتِ امام حسین (ع) پر مداومت کرنے والے کے رزق میں برکت اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔اللہ کی زیارت کا شرف: ایک مشہور حدیث میں امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ "جس نے شبِ عرفہ امام حسین (ع) کی زیارت کی، وہ ایسے ہے جیسے اس نے عرش پر اللہ کی زیارت کی۔" یہ ایک تمثیلی بیان ہے جو اس زیارت کی عظمت اور روحانی بلندی کو ظاہر کرتا ہے۔رسول اللہ (ص) اور آئمہ (ع) کی دعا: زائرِ امام حسین (ع) کے لیے خود رسول اکرم (ص)، حضرت علی (ع)، حضرت فاطمہ (س) اور دیگر آئمہ معصومین (ع) دعا فرماتے ہیں۔خلاصہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی تعلیمات کی روشنی میں، امام حسین علیہ السلام کی زیارت صرف ایک قبر پر حاضری نہیں، بلکہ یہ ایمان کا ایک کلیدی جزو ہے:
یہ اجرِ رسالت کی ادائیگی ہے۔یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے محبت اور وفاداری کا عملی ثبوت ہے۔یہ حق کو باطل سے الگ کرنے والے معیار (امام حسینؑ) کی حمایت کا اعلان ہے۔یہ دنیا اور آخرت میں بے پناہ اجر و ثواب اور روحانی درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے۔اسی لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے امام حسین (ع) کی محبت اور ان کی یاد کو اپنی امت کے لیے ایک دائمی مشعلِ راہ قرار دیا۔