چند روز قبل حرم مقدس حسینی کی جانب سے کربلاء مقدسہ کی جانب آنے والے زائرین کی سہولیات کے لئے "شہر سید الاوصیاء" کمپلیکس کا افتتاح کیا گیا ہے جس کا فن تعمیر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے نہ صرف یہ کربلاء بلکہ عراق میں اپنی طرز کا جدید ترین شہر ہے اس کے ساتھ ہی کربلاء مقدسہ جیسے شہر ثقافتی و قدیمی تاریخ کا حامل جہاں جدت اور فن و اسلامی ورثہ کو ماہرین نے اس شہر کی صورت میں ایک شاہکار کی شکل میں تعمیر کیا ہے۔
جہاں مابعد تعمیر ناقدین نے اس اعتبار سے نقد کی ہے کہ جہاں ملک عراق حالیہ جاری جنگی بحران کے پیش نظر حرم مقدس حسینی کو یہ شہر تعمیر کرانے کی انتہائی ضرورت تھی؟جہاں مالی بحران کا سیلاب حکومت عراق بشمول مختلف حکومتی ادارے بجٹ کے خسارے کو کم کرنے سے قاصر ہیں اتنی زیادہ لاگت میں یہ شہر کیوں تعمیر کیا گیا؟
اس جواب میں فقط اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ناقدین کوحرم مقدس حسینی کے دیگر منصوبوں کا علم ہی نہیں جو اس "شہر سیدالاوصیاء " سے بھی بڑے ہیں ۔ مگر قصد تعمیر کہ جہاں زائرین امام حسین علیہ السلام کے لئے آنے والے زائرین کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بروز قیامت جتنے بلند درجات اور بشارت کے ساتھ ایک بلند مرتبہ اور کرم بخشاہے کیا ان زائرین کی سہولت کے لئے اگر ایک شہر تعمیر کیا جائے تو کس حد تک برائی ہے؟ اور اس کے ساتھ ہی دیکھا جائے تو آج کل کے جنگی بحران کے پیش نظر ہجرت کر کے آنے والے پناہ گزینوں کے لئے یہی مسکن قرار پائے ہیں اور ان کے لئے جنگ میں شامل مجاہدین کے علاج معالجہ کے لئے کافی تعداد میں ہسپتالوں کا افتتاح کیا گیا ہے جس کے ساتھ ساتھ اول دفاعی صفوف تک حرم مقدس حسینی کی امداد برابر پہنچ رہی ہے ۔
مگر اس کے ساتھ ہی ملک کے حالیہ جنگی حالات سے پہلے ہی 2011 میں "شہر سید الاوصیاء" اپنی تعمیر کا 85 فیصد مکمل ہوچکا تھا جسے اپنے وقت پر مکمل کرنا ضروری تھا اور اس کے علاوہ حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبدالمہدی کربلائی کی جانب سے تصریح کہ ہم عراقی کی مختلف ممالک سے متصل زمینی حدود پر ایسے شہروں کی تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں ۔
توصیف رضا
اترك تعليق