خطبہ 103 کا ترجمہ و تشریح (خطبۂ اشباح)

یہ خطبہ، جسے "خطبۂ اشباح" بھی کہا جاتا ہے، نہج البلاغہ کے عمیق ترین اور حیرت انگیز خطبات میں سے ایک ہے۔ اس میں امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ذات، آسمانوں کی تخلیق اور فرشتوں کی ماہیت کو اس طرح بیان کیا ہے جو امام (ع) کی الٰہی معرفت اور بصیرت کے عروج کو ظاہر کرتا ہے۔

پہلا حصہ: اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا

متنِ عربی:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَا يَفِرُهُ الْمَنْعُ وَ الْجُمُودُ وَ لَا يُكْدِيهِ الْإِعْطَاءُ وَ الْجُودُ إِذْ كُلُّ مُعْطٍ مُنْتَقِصٌ سِوَاهُ وَ كُلُّ مَانِعٍ مَذْمُومٌ مَا خَلَاهُ وَ هُوَ الْمَنَّانُ بِفَوَائِدِ النِّعَمِ وَ عَوَائِدِ الْمَزِيدِ وَ الْقِسَمِ عِيَالُهُ الْخَلَائِقُ ضَمِنَ أَرْزَاقَهُمْ وَ قَدَّرَ أَقْوَاتَهُمْ وَ نَهَجَ سَبِيلَ الرَّاغِبِينَ إِلَيْهِ وَ الطَّالِبِينَ مَا لَدَيْهِ وَ لَيْسَ بِمَا سُئِلَ بِأَجْوَدَ مِنْهُ بِمَا لَمْ يُسْأَلْ1.

اردو ترجمہ:

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جسے روک لینا اور نہ دینا دولت مند نہیں بناتا، اور عطا و بخشش اسے فقیر نہیں کرتی؛ کیونکہ اس کے سوا ہر عطا کرنے والے کے مال میں کمی آتی ہے، اور اس کے علاوہ ہر روکنے والا قابلِ مذمت ہے۔ وہ فائدہ مند نعمتوں، مسلسل عطیوں اور تقسیم شدہ رزق کے ذریعے احسان فرمانے والا ہے۔ تمام مخلوقات اس کا کنبہ ہیں، اس نے ان کے رزق کی ضمانت لی ہے، ان کی خوراک مقرر کی ہے، اور اپنی طرف رغبت کرنے والوں اور اپنے خزانوں کے طلبگاروں کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے۔ اس کی سخاوت اس چیز میں زیادہ نہیں جو اس سے مانگی جائے، بہ نسبت اس کے جو اس سے نہ مانگی جائے۔

تشریح:

اس حصے میں امام (ع) اللہ تعالیٰ کی چند منفرد خصوصیات بیان فرما رہے ہیں:

غنائے مطلق: انسانوں کے برعکس جو مال روک کر خود کو امیر محسوس کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ ذاتاً غنی ہے۔لامحدود بخشش: اللہ کی عطا اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں کرتی۔ وہ تمام نعمتوں کا لامحدود سرچشمہ ہے۔ یہ تصور انسان کے "عطا کرنے" کے تصور سے بالکل مختلف ہے جس میں ہمیشہ کمی واقع ہوتی ہے۔سب کا رازق: چھوٹے سے چھوٹے ذرے سے لے کر عظیم ترین کہکشاؤں تک، تمام مخلوقات اس کی محتاج اور اسی سے رزق پانے والی ہیں۔ اللہ نے نہ صرف ان کے رزق کی ضمانت لی ہے، بلکہ اس تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا راستہ بھی آسان بنا دیا ہے۔بے سوال کرم: اس کی بخشش اور کرم ہمارے سوال پر منحصر نہیں۔ وہ اپنے لطف و حکمت سے، ہماری زبان پر آنے سے پہلے ہی ہماری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔

دوسرا حصہ: اللہ کا وصف اور عقلوں کی نارسائی

متنِ عربی:

الْأَوَّلُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَهُ قَبْلٌ فَيَكُونَ شَيْ‏ءٌ قَبْلَهُ وَ الْآخِرُ الَّذِي لَيْسَ لَهُ بَعْدٌ فَيَكُونَ شَيْ‏ءٌ بَعْدَهُ وَ الرَّادِعُ أَنَاسِيَّ الْأَبْصَارِ عَنْ أَنْ تَنَالَهُ أَوْ تُدْرِكَهُ لَا يُغَيِّرُهُ مُرُورُ الْأَزْمَانِ وَ لَا يَتَكَاءَدُهُ صُنْعُ شَيْ‏ءٍ كَانَ...

اردو ترجمہ:

وہ ایسا اول ہے جس سے پہلے کوئی "قبل" نہ تھا کہ کوئی شے اس سے پہلے ہو، اور ایسا آخر ہے جس کے بعد کوئی "بعد" نہیں کہ کوئی شے اس کے بعد ہو۔ اس نے آنکھوں کی پتلیوں کو روک دیا ہے کہ وہ اسے پا سکیں یا اس کا ادراک کر سکیں۔ زمانے کا گزرنا اسے تبدیل نہیں کرتا اور کسی موجود چیز کو بنانا اسے مشقت میں نہیں ڈالتا...

تشریح:

یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو بیان کرتا ہے جو زمان و مکان سے ماورا ہیں:

اول و آخرِ مطلق: اللہ کی کوئی ابتدا اور انتہا نہیں۔ وہ زمان و مکان پر محیط ہے اور ان سے محدود نہیں۔حسی ادراک سے بالاتر: اللہ کی ذات حواسِ خمسہ سے درک نہیں کی جا سکتی۔ آنکھیں اسے دیکھنے سے قاصر ہیں اور عقلیں اس کی ذات کا مکمل احاطہ کرنے سے عاجز ہیں۔ جو کچھ بھی ہمارے ذہن میں آتا ہے، وہ ہمارے ذہن کی مخلوق ہے، خالق نہیں۔عدمِ تغیر: اللہ تعالیٰ تغیر اور تبدیلی سے پاک ہے۔ وقت اس پر اثر انداز نہیں ہوتا، کیونکہ وہ خود وقت کا خالق ہے۔

تیسرا حصہ: آسمانوں کی تخلیق

متنِ عربی:

... كَبَسَ الْأَرْضَ عَلَى مَوْرِ أَمْوَاجٍ مُسْتَفْحِلَةٍ وَ لُجَجِ بِحَارٍ زَاخِرَةٍ تَلْتَطِمُ أَوَاذِيُّ أَمْوَاجِهَا وَ تَصْطَفِقُ مُتَقَاذِفَاتُ أَحْمَالِهَا... ثُمَّ أَنْشَأَ سُبْحَانَهُ فَتْقَ الْأَجْوَاءِ وَ شَقَّ الْأَرْجَاءِ وَ سَكَائِكَ الْهَوَاءِ فَأَجْرَى فِيهَا مَاءً مُتَلَاطِماً تَيَّارُهُ...

اردو ترجمہ:

...اس نے زمین کو طوفانی موجوں اور متلاطم سمندروں کے گہرے پانیوں پر قائم کیا۔ ایسی موجیں جو ایک دوسرے سے ٹکراتی تھیں اور اپنے بھاری بوجھ ہر طرف پھینکتی تھیں... پھر اللہ سبحانہ نے فضاؤں کو چیرا، اطراف کو کھولا اور ہوا کے طبقات پیدا کیے، اور ان میں ایسا پانی جاری کیا جس کی روانی تیز اور موجیں تہہ در تہہ تھیں...

تشریح:

اس حصے میں انتہائی شاعرانہ اور طاقتور منظر کشی کے ذریعے کائنات کی تخلیق کے ابتدائی مراحل کو بیان کیا گیا ہے۔

تخلیق کی منظر کشی: امام علی (ع) "طوفانی موجوں"، "متلاطم سمندروں" اور "فضاؤں کو چیرنے" جیسے الفاظ استعمال کرکے ایک ایسی ابتدائی حالت کی تصویر کھینچتے ہیں جو توانائی اور افراتفری سے بھرپور تھی، جسے اللہ نے اپنی قدرت سے قابو کیا اور نظم بخشا۔ یہ تفصیلات کائنات کی ابتدا کے بارے میں بعض جدید سائنسی نظریات (جیسے بگ بینگ اور ابتدائی پلازما کی حالت) سے حیرت انگیز مماثلت رکھتی ہیں۔انتشار سے نظم کا ظہور: اس حصے کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اللہ کی قدرت نے کس طرح ایک بے نظم حالت سے نظم و ضبط قائم کیا۔ یہی وہ قدرت ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو قائم رکھا ہوا ہے۔

چوتھا حصہ: فرشتوں کی تخلیق

متنِ عربی:

ثُمَّ فَتَقَ مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ الْعُلَا فَمَلَأَهُنَّ أَطْوَاراً مِنْ مَلَائِكَتِهِ مِنْهُمْ سُجُودٌ لَا يَرْكَعُونَ وَ رُكُوعٌ لَا يَنْتَصِبُونَ وَ صَافُّونَ لَا يَتَزَايَلُونَ وَ مُسَبِّحُونَ لَا يَسْأَمُونَ...

اردو ترجمہ:

پھر اس نے بلند آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کیے اور انہیں طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا۔ ان میں سے کچھ ہمیشہ سجدے میں ہیں، رکوع نہیں کرتے؛ کچھ رکوع میں ہیں، قیام نہیں کرتے؛ کچھ صف باندھے کھڑے ہیں جو کبھی منتشر نہیں ہوتے؛ اور کچھ ہمیشہ تسبیح کرتے ہیں اور کبھی اکتاتے نہیں...

تشریح:

یہ آخری حصہ فرشتوں کی ماہیت اور ان کی عبادت کو بیان کرتا ہے:

دائمی اور خالص عبادت: فرشتے ایسی مخلوق ہیں جن کا پورا وجود اللہ کی عبادت کے لیے وقف ہے۔ ان کا ہر گروہ ایک خاص قسم کی عبادت میں مشغول ہے اور اسی حالت میں قائم ہے۔ یہ پروردگار کے سامنے کامل عبودیت اور تسلیمِ محض کی علامت ہے۔تھکاوٹ اور غفلت سے پاک: انسانوں کے برعکس، فرشتے عبادت میں تھکاوٹ، سستی یا غفلت کا شکار نہیں ہوتے۔ نیند اور فراموشی ان میں نہیں پائی جاتی اور اللہ کے بارے میں ان کی معرفت کامل ہے۔انسان کے لیے نمونہ: فرشتوں کی عبادت کی یہ تفصیل انسانوں کے لیے ایک نمونہ ہے تاکہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق عبادت و بندگی میں استقامت کا مظاہرہ کریں اور اس سے نہ اکتائیں۔

یہ خطبہ اسلامی الہیات اور عمیق کائناتی شعور کا ایک شاندار نمونہ ہے، جو امیرالمومنین (ع) کی فصیح و بلیغ زبان سے ادا ہوا ہے۔