قتل کا بدلہ قتل (قصاص ایک انتقام یا تربیت)

بعض مفکرین و مہتمین نے قتل کے بدلے میں لیا جانے والا مال "قصاص" ایک انتقام ، خون کا بدلہ تعبیر کیا ہے اور دلیل میں قرآن مجید کی آیت کریمہ جسے قصاص کی دلیل میں پیش کیا جاتا ہے ۔ اپنی رائے میں ۔ یہ زعم کرتے ہیں کہ زمانہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے منسوب ہے اور وہ وقت گزر چکا جبکہ ان افعال  پر عمل کیا جاتا تھا مگر اب جب کہ جدید دور میں سے گزر رہے ہیں اور مغربی معاشرے کی نکتہ چینی سے بچنے کے لئے اسے ترک کرنا چاہئیے کیونکہ یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے ۔

یہاں قصاص کے بارے میں مختصر تعارف قرآنی حوالے سے کچھ یوں ہے

"عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس باعث تم (قتل ناحق سے ) رکو گے"(البقرہ 179)

قدیم زمانے میں عرب لوگ آیت کریمہ کے نزول سے پہلے قصاص پر یقین رکھتے تھے مگر اس کی حد معین نہ تھی بلکہ قبائلی قوت پر بھروسہ کیا جاتا تھا بعض اوقات ایک مرد کا بدلہ ایک مرد، ایک عورت کے بدلے ایک عورت قتل کئے جاتے تھے اور بعض اوقات کسی ایک کے مرنے پر دس کو قتل کیا جاتا اوربعض اوقات پورے قبیلہ کو ختم کردیا جاتا جبکہ پہلی جانب ایک شخص مقتول ہوتا ۔

یہود بھی قصاص پر یقین رکھتے تھے کیونکہ قرآن مجید کی سورہ مائدہ میں ذکر آیا ہے

"اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے ، پھر جو شخص اس کو معاف کردے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں"

جب کہ نصاریٰ کے بارے میں آیا ہے کہ قتل کے اس موضوع پر معافی اور دیت سے زیادہ کے طلبگار نہ تھے پس دنیائے عالم کی تمام تہذیبیں قصاص سے دستبردار نہ تھیں اور حد کے لحاظ سے مختلف تھیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کاظہور ہوا اور آپ نے حد بندی فرما دی ۔

اسی بناء پر اسلام نے وسط کا راستی اختیار کیا کہ اگر ثابت ہونے کی  صورت میں معافی کا حق روشناس کرایا جس کے ذریعے معافی اور قصاص دونوں کو جائز قرار دیا اور تعادل کی صورت میں راہ وسط کا انتخاب کیا ہے۔

اور فقط قصاص اور قصاص کی صورت میں فقط قتل پر اعتراض کیا ہے اور جس کی دلیل میں قرآن مجید کی آیت ہے

"جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا"

اور دیگر آیت میں وارد ہے کہ

"پس جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہئیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہئیے تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے"

اگر ملاحظہ کریں تو قرآن مجید کا انداز خطاب ایک تربیتی خطاب ہے اور اگر اسے صحیح طریقے سے سمجھا اور مانا جاتا تو اسے انتقام کی بجائے ایک تربیتی حد کے طور پر مانا جاتا ۔

 

منسلکات