محبت کے ذریعے عمل کی تلافی

محبت عمل سے جدا نہیں ہے محبت انسان کے عمل ،حر کت اور جد و جہد کی علا مت ہے لیکن محبت ،عمل کا جبران کر تی ہے اور جس شخص نے عمل کرنے میں کو ئی کو تا ہی کی ہے اس کی شفاعت کر تی ہے وہ اﷲ کے نز دیک شفیع ومشفع ہے ۔

حضرت امام علی بن الحسین علیہ السلام ماہ رمضان میں سحری کی ایک دعا میں جو ابو حمزہ ثما لی سے مر وی ہے اور بڑی عظیم دعا میں شما ر ہو تی ہے فرما تے ہیں :

(معرفت یامولا دلیل علیک وحب لک شفیع الیک وانا واثق من دلیل بدلالتک ومن شفیع الیٰ شفاعتک )

''اے میرے آقا میری معرفت نے میری،تیری جانب راہنما ئی کی ہے اور تجھ سے میری محبت تیری بارگاہ میں میرے لئے شفیع قرار پا ئیگی اور میں اپنے رہنما پر بھروسہ کئے ہوئے ہوں نیز مجھے اپنے شفیع پر اعتماد ہے ''

معرفت اور محبت بہترین رہنما اور شفیع ہیں لہٰذا وہ انسان ضائع نہیں ہوسکتا جس کی اللہ کی طرف رہنمائی کرنے والی ذات اسکی معرفت ہے اور وہ بندہ مقصد تک پہنچنے میں پیچھے نہیں رہ سکتا جس کی خداوند عالم کے سامنے شفاعت کرنے والی ذات محبت ہے ۔

حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام فر ما تے ہیں :

(الٰہ انّک تعلم انّ وان لم تدم الطاعة منّ فعلاجزما فقددامت محبّة ۔

''خدایا تو جانتا ہے کہ میں اگرچہ تیری مسلسل اطاعت نہ کرسکا پھر بھی تجھ سے مسلسل محبت کرتا ہوں ''

یہ امام علیہ السلام کے کلا م میں سے ایک لطیف و دقیق مطلب کی طرف اشارہ ہے بیشک کبھی کبھی اطاعت انسان کو قصور وار ٹھہرا تی ہے اور وہ اﷲ کی اطاعت پر اعتماد کر نے پر متمکن نہیں ہو تا ہے لیکن اﷲ سے محبت کر نے والے انسانوں کے یقین و جزم میں شک کی کو ئی راہ نہیں ہے اور جس بندے کے دل میں اﷲ کی محبت گھر کر جا تی ہے اس میں شک آہی نہیں سکتا ۔بندہ بذات خود ہی اطاعت میں کو تا ہی کر تا ہے اور وہ ان چیزوں کا مرتکب ہو تا ہے جن کو خدا وند عالم پسند نہیں کر تا اور نہ ہی اپنی معصیت کرنے کو دو ست رکھتا ہے لیکن اس کیلئے یہ امکان نہیں ہے کہ (بندہ اطاعت میں کو تا ہی کرے اور معصیت کا ارتکاب کرے )اطاعت کو نا پسند کرے اور معصیت کو دوست رکھے ۔

بیشک کبھی اعضا و جوارح معصیت کی طرف پھسل جاتے ہیں ،ان میں شیطان اور   خو ا ہشات نفسانی داخل ہو جا تے ہیں اور اعضاء و جوارح اﷲ کی اطاعت کرنے میں کو تا ہی کر نے لگتے ہیں لیکن اﷲ کے نیک و صالح بندوں کے دلوں میں اﷲ کی محبت ،اس کی اطاعت سے محبت اور اس کی معصیت کے نا پسند ہو نے کے علا وہ اور کچھ داخل ہی نہیں ہو سکتا ہے ۔

ایک دعا میں آیا ہے :

(الٰہ احبّ طاعتک وانْ قصرت عنھاواکرہ معصیتک وانْ رکبتھا فتفضل علّ بالجنّة )

''خدایا! میں تیری اطاعت کرنا چا ہتا ہوں اگر چہ میں نے اس سلسلہ میں کو تا ہی کی ہے اور مجھے تیری معصیت کرنا نا گوار ہے اگر چہ میں تیری معصیت کاارتکاب کر چکا ہوں لہٰذا مجھ کو بہشت کرامت فرما ''

جوارح اور جوانح کے درمیان یہی فرق ہے بیشک جوارح کبھی جوانح سے ملحق ہو نے سے کوتاہی کر تے ہیں اور کبھی جوانح اپنے پروردگار کی محبت میں مکمل طور پر خاضع وخاشع ہو جا تے ہیں اور جوارح ایسا کرنے سے کوتاہی کر تے ہیں لیکن جب دل پاک وپاکیزہ اور خالص ہو جاتاہے تو جوارح اسکی اطاعت کرنے کیلئے نا چار ہوتے ہیں اور ہمارے لئے جوارح اور جوانح کی مطلوب چیز کا نافذکرنا ضروری ہے اور ہم جوارح اور جوانح کے درمیان کے اس فا صلہ کو اخلاص قلب کے ذریعہ ختم کر سکتے ہیں

 

منسلکات