آپ بھی انصار امام حسین علیہ السلام میں سے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شہادت پائی ۔
آپ کا تعلق کوفہ سے تھے اور کوفہ سے امام حسین علیہ السلام کے لشکر سے جا ملے آپ کا التحاق لشکر حضرت حر علیہ السلام کے لشکر کے پہنچنے سے پہلے تھا
ابو مختف کہتے ہیں کہ جب حر اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان مراسلات کا سلسلہ ہوا تو یزید بن زیاد موجود تھے ان مراسلات میں سے ایک مراسلہ کی نص یہ تھی :
جب حر علیہ السلام کا قاصد خط لیکر پہنچا تھا تو اس میں تھا کہ جب میرا خط آپ تک پہنچے اور میرا قاصد آپ تک پہنچے تو بغیر پناہ و پانی کے کھلے صحراء میں قیام کریں اور میں نے اپنے قاصد کو حکم دیاہے کہ جب تک میرے حکم کی تعمیل نہ ہو آپ سے اوجھل نہ ہو
والسلام
اس وقت یزید بن زیاد قاصد کے پاس آکر پوچھا کہ تم مالک بن نسر ہو؟
مالک نے کہا : ہاں
پس اسے کہا کہ تیری ماں تیری یاد میں بیٹھے ، یہ کیا لے کر آئے ہو؟
مالک نے کہا : میں کیا لے کر آیا ہوں ؟
اپنے امام کی اطاعت کی ہے اور اپنی بیعت کی پاسداری کی ہے ۔
تو ابو شعثاء نے کہا کہ اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور اپنی ہلاکت میں اپنے امام کی پیروی کی ہے اور عار و جہنم کسب کیا ہے کیا اللہ تعالیٰ کا قول نہیں سنا تم نے کہ (اور ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا اور قیامت کے روز وہ کہیں سے کوئی مدد نہیں پاسکیں گے) پس مالک بھاگ گئے ۔
اور ابو مخنف روایت کرتے ہیں کہ ابو شعثاء ایک بہادر جنگجو تھے جب آپ کا گھوڑا گرا تو زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر تیر اندازی کی چونکہ آپ تیر اندازی کے ماہر تھے آپ نے اس دوران 100 تیر چلائے جن سے 5 دشمنوں کو تیراندازی سے واصل جہنم کیا
اور امام حسین علیہ السلام اس دوران فرماتے تھے کہ اے اللہ اس کا اجر دینا اور اسکا ثواب جنت ہو ۔
اور جب تیر ختم ہوگئے تو اپنی تلوار اٹھا کر دشمنوں پر حملہ آور ہوئے
یہاں تک کہ جنگ کرتے ہوئے شہادت فرمائی