چہلم کی زیارت کے سلسلے میں ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے، یہ سفر صرف اس لئے نہ ہو کہ ہمارے اندر ایک بہترین روحانی کیفیت پیدا ہوجائے بلکہ اس سفر کو ایک ذمہ داری سمجھ کر ادا کرے کی کوشش کرنا چاہئے۔
جس طرح ایک مومن عاشوراء کے دن اس ذمہ داری کا احساس کرتا ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے لیے عزاداری کرے اسی طرح اس کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا بھی احساس کرنا چاہئے، زیارت کو حج کی طرح واجب نہیں کیا گیا ہے، اس کو مومنین پر چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ وہ خود اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، زیارت کے بارے میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کو ذکر کیا جارہا ہے تاکہ ہم زیارت کی طرف راغب ہوں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک چاہنے والے سے پوچھا:
« بَلَغَنِی أَنَّ قَوْماً مِنْ شِیعَتِنَا یَمُرُّ بِأَحَدِهِمُ السَّنَةُ وَ السَّنَتَانِ لَا یَزُورُونَ الْحُسَیْنَ؟ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ إِنِّی أَعْرِفُ أُنَاساً کَثِیرَةً بِهَذِهِ الصِّفَةِ. قَالَ أَمَا إِنَّهُ مَا لَهُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ عُذْرٍ وَ لَا عِنْدَ رَسُولِهِ مِنْ عُذْرٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ
میں نے سنا ہے کہ کچھ مومنین ایسے ہیں کہ ایک دو سال گذر جاتے ہیں اور وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت نہیں کرتے، اس شخص نے جواب دیا، مولا ایسے بہت سے لوگ ہیں، امام علیہ السلام نے فرمایا: ایسے لوگ اللہ کے سامنےکیا عذر پیش کرینگے اور قیامت کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کو کیا جواب دیں گے۔
دوسری حدیث میں امام صادق علیہ السلام فرمارہے ہیں: غریب انسان سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور جائیں اور مالدار سال میں دو مرتبہ، اور دوسری جگہ فرمارہے ہیں: امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو نہ جانے کا وقفہ بغیر کسی وجہ کے تین سال سے زیادہ کا نہ ہو۔ یہ حدیث، اس زیارت کی اہمیت کو بخوبی اجاگر کر رہی ہے کہ سبھی کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے اپنے اعتبار سے کوشش کرنا چاہئے۔
بد قسمتی سے اب بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کربلا جانا ہے تو دل سے جاؤ یعنی اگر دل سفر کرنے کو چاہتا ہو تو جاؤ جب کہ ہمارے یہاں ایسی کوئی روایت نہیں ہے، جی ہاں روایت میں ہے کہ جب حرم میں جاؤ تو زیادہ دیر حرم میں نہ رہو بلکہ جتنی دیر پوری عقیدت اور توجہ کے ساتھ رہ سکو اتنی دیر رہو، وہی کافی ہے اور جلدی واپس ہوجاؤ۔
جتنی تاکید امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئےکی گئی ہے، حج اور عمرہ کے لئے بھی اتنی تاکید نہیں کہ گئی، اگر آپ ایک بار حج کر لیں تو آپ کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے امام حسین علیہ السلام کی زیارت مستحب حج اور عمرے سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب ان سے زیادہ ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرما رہے ہیں:
«مَنْ زَارَ قَبْرَ الْحُسَیْنِ علیه السلام کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ حِجَّةً وَ عُمْرَةً
جو کوئی امام حسین علیہ اسلام کی قبر کی زیارت کرے، اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے میں ایک حج اور ایک عمرہ کو لکھے گا۔
یہ درست ہے کہ یہ تحریک، شوق اور محبت سے شروع ہوئی ہے لیکن اس کو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ جاری رہنا چاہیے، اور ذمہ داری کا یہ احساس، شوق کے منافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اگر ہو تو اہل بیت علیھم السلام کی محبت اور عقیدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کوئی یہ نہ سوچےکہ جب ہم ذمہ داری کی بات کرتے ہیں تو یہ ذمہ داری اہل بیت علیھم السلام سے جو ہم عشق و محبت رکھتے ہیں اس سے جدا ہے یقینا جو شخص ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اس زیارت کے لیے جائے اور کہے اے میرے مولا یہ میری ذمہ داری تھی کہ میں یہاں آؤں تو ایسا شخص زیادہ نورانیت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
خصوصا آج کے دور میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کیونکہ آج کربلا میں اربعین کے موقع پر ہم سب کا جمع ہونا شیعت کی قدرت کا اظہار کرنا ہے جو ہمیں امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کے صدقہ میں نصیب ہوئی ہے۔۔
چہلم کے سلسلے میں جس سے جو کام ہو سکتا ہے وہ کرے, ہم نے پوری تاریخ میں اتنا عظیم اجتماع نہیں دیکھا اسی لئے سب کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو جوش دلائیں اور ان کی رہنمائی کریں اگر کوئی نہیں آسکتا ہے تو وہ نذر نیاز اور امداد فراہم کرے اگر آپ خود چہلم کے سفر پر نہ جا سکیں تو کم سے کم چہلم کے زائرین کے لیے خرچے میں شریک ہو جائیں۔ روایات کے مطابق جو شخص خود اپنی ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتا اور زیارت پر نہیں جا سکتا اگر وہ دوسرے شخص کا خرچ دے دے تو اسے زیارت کا ثواب مل جائے گا۔