دین پر امام حسین علیہ السلام کا کتنا بڑا احسان ہے؟

عاشورہ کا دن، نمازِ ظہر کا وقت آیا۔ کچھ اصحاب باقی ہیں۔ اُن میں سے ایک عرض کرتے ہیں: فرزند رسول! زوال کا وقت شروع ہوگیا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اقتداء میں آخری نماز پڑھ لیں۔ امام حسین علیہ السلام آمادہ ہوئے۔ کس طرح کی نماز ہوئی۔ کچھ اصحاب اس طرف آگے کھڑے ہوگئے ، جدھر فوج تیر برسارہی تھی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نماز میں مصروف ہوئے۔ یہ آگے امام حسین علیہ السلام کے کھڑے ہوگئے۔ اِدھر سے تیر آرہے ہیں۔ ہڈیوں کو توڑ رہے ہیں۔ سینے میں پیوست ہورہے ہیں لیکن ان میں سے ایک نہیں گرتا۔ کیوں اس قدر استغراق ہے۔ اس قدر غرق ہوچکے ہیں عشقِ حسینی میں کہ تیروں کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں لگ رہے ہیں۔ امام حسین کی جب آواز آئی:

"اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ"

اب سمجھے کہ نماز ختم ہوئی۔ اُدھر نماز ختم ہوئی امام حسین علیہ السلام کی، اِدھر یہ ختم ہوگئے۔ آپ نے خیال فرمایا کہ اتنی روحانیت کے مالک کبھی آپ نے دیکھے ہیں کہ آئے ہیں اپنی جانیں فداکرنے کیلئے۔

امام حسین علیہ السلام سے عہد ہوچکا ہے۔ حضرت نے فرمایا:

بھائیو! تم چلے جاؤ، آج کی شام میں نہیں دیکھوں گا۔ عاشورہ کا دن ہے، رات کو کہا تھا کہ یہ رات جو آنے والی ہے، میری زندگی میں نہیں آئے گی۔ چلے جاؤ، اپنے بال بچوں سے جاکر مل لو جن کے بال بچے ہیں، وہ مل آئیں۔

وہ آوازیں دیتے ہیں کہ حسین ؑ ! اگر ہم چلے جائیں تو خدا کرے ہمیں درندے کھا جائیں۔ حسین فرماتے ہیں:بھائیو! میں نانا کو تم سے راضی کروالوں گا۔ میں یہ کہہ دوں گا: نانا! میں نے خود ان کو بھیجا تھا، یہ خود نہیں آئے تھے۔ میرے نانا تم سے ناخوش نہیں ہوں گے۔ امام حسین علیہ السلام نے یہ فرمایا۔ جانتے ہیں، کیا جواب دیا ہے اصحابِ باوفا نے: اگر ہم ہزار بار قتل کئے جائیں اور پھر جلا دئیے جائیں اور ہماری راکھ اُڑا دی جائے تو ہر بار ہماری راکھ کا ہر ذرہ آپ کے قدموں میں گرے گا۔ آپ کو چھوڑ کر کیوں چلے جائیں؟ رہ گئے یہ بال بچے، حسین ! اگر آپ کی راہ میں ان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف سے بڑی راحت کیا ہے؟

۔ اس وقت یزید کی بیعت کس کس نے کرلی تھی؟ کوئی بڑے سے بڑا خاندان ایسا نہیں رہا تھا جس نے یزید کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرلی ہو۔ عبداللہ ابن زبیر مکہ چلے گئے تھے۔ اپنی خلافت کا اعلان کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کی دسترس میں یہ چیز نہ تھی، انہوں نے سب نے بیعت کرلی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے کہانانا کے روضے پر جاکر: نانا!میں آپ کی قبر کو کبھی نہیں چھوڑتا لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی محنتیں برباد ہورہی ہیں۔ میرے علی اکبر کے سینے پر برچھی لگ جائے گی۔ میری بہنیں قید ہوجائیں گی لیکن آپ کی محنت کو برباد نہیں ہونے دوں گا۔

اے میرے بزرگو! کبھی تصور میں سوچنا اِن چیزوں کو، اپنی جان کو پیش کردینا اور بات ہے، غیروں کو بلا کر آگے کردینا اور بات ہے۔ عزیزوں کو بھی آگے بڑھا دینا اور بات ہے۔ لیکن حضور!ناموس کا معاملہ ایساہے کہ جب یہ معاملہ آتا ہے تو اولاد کو بھی فدا کردیا جاتا ہے کہ ناموس پر حرف نہ آنے پائے۔ جان کو بھی فدا کردیا جاتا ہے۔ سب کچھ فدا کردیتا ہے لیکن جب دین پر مصیبت آتی ہے تو پھر ناموس کو بھی فدا کردینا چاہئے۔ لیکن دنیا میں آج تک ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا سوائے امام حسین علیہ السلام کے جو گھر سے اپنی بیٹیوں اوربہنوں کو لے کر چلے۔ جنہوں نے غالباً دن کے وقت گھر کے باہر کی دیوار تک نہ دیکھی تھی۔ اگر کبھی نانا کی زیارت کا شوق ہوا، خود نہیں گئیں، امیرالموٴمنین علیہ السلام سے یا بھائیوں سے کہا کرتی تھیں۔

بابا! اماں کی قبر کی زیارت کو دل چاہتا ہے۔ نانا کی قبر کی زیارت کو دل چاہتا ہے، اجازت دیجئے۔ امیر الموٴمنین اجازت دیتے تھے ۔ مگر پہلے یہ حکم دیتے تھے کہ یہاں سے جنت البقیع تک جو راستہ ہے، اس راستے میں اِدھر اُدھر جو کوچے ہیں، پہلے وہ بندکردئیے جائیں کہ کوئی اِن کوچوں سے گزرنے والا نہ گزرے۔ اس کے بعد جب نکلتی تھیں شہزادیاں تو ایک طرف امام حسن علیہ السلام ہوتے تھے اور ایک طرف امام حسین علیہ السلام ہوتے تھے۔ اِن شہزادیوں کو امام حسین علیہ السلام اپنے ہمراہ لے کر جارہے ہیں کہ اُن کی شہادت کے بعد بازاروں میں پھرائی جائیں گی۔ یہ درباروں میں لائی جائیں گی۔ اب سمجھئے کہ دین پر امام حسین علیہ السلام کا کتنا بڑا احسان ہے۔

عاشورہ کا دن ہے، کوئی نہیں رہاامام حسین علیہ السلام کے ساتھ علی اصغر علیہ السلام کو دفن کرچکے۔ علی اکبر علیہ السلام کا لاشہ اُٹھا کر لے جاچکے ہیں۔ عباس علیہ السلام کے بازو قلم ہوچکے۔ دریا پر چھوڑ آئے کیونکہ وصیت یہ تھی کہ مجھے نہ لے جائیے گا۔ یہ سب کچھ ہوچکا۔ اب امام حسین علیہ السلام میدان میں کھڑے ہوئے اُن سے کہہ رہے ہیں:

کوفے اور شام کے لوگو!دیکھو، اب میرا کوئی نہیں، میں زندہ نہیں رہوں گا لیکن تھوڑا سا پانی تو پلا دو۔ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا۔ چند لمحوں کے بعد ایک شخص کی آواز آتی ہے داہنی طرف سے :پیاسے میرا سلام!امام حسین اُس طرف دیکھتے ہیں، ایک شخص کھڑا ہوا ہے مسافرانہ لباس میں۔ ہاتھ میں کشکول پانی سے بھرا ہوا۔ آپ نے فرمایا: تو کون ہے جو یہاں مجھے سلام کررہا ہے کیونکہ یہاں تو کوئی مجھے سلام کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔ اس نے کہا کہ میں فلاں جگہ کا رہنے والا ہوں، میرا دل چاہا کہ میں کچھ سیاحت کروں۔ سیاحت کیلئے گھر سے چلا تھا۔ آج اس دریا کے کنارے پہنچا، کنارے پر بیٹھ گیا۔ پانی پیا، منہ ہاتھ دھویا۔ بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ تھوڑا سا دم لے لوں، پھر چلوں گا۔ پیاسے! ایک مرتبہ تیری آواز جو کان میں آئی کہ مجھے پانی پلا دو، میرے دل کی رگیں کٹ گئیں۔ اتنا اثر کیا کہ میں بیٹھ نہ سکا۔ یہ پانی بھر کر لایا ہوں، لے پی لے۔آپ نے فرمایا: خدا تجھے جزائے خیر دے، میں پانی نہ پیوں گا، چلا جا ، دور نکل جا کیونکہ اس کے بعد جو میری فریاد کی آواز بلند ہوگی، وہ جو کوئی سن لے گا اور نہ آئے گا، تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تو چلا جا۔ اُس نے کہا :

میں چلا تو جاؤں لیکن تو پانی تو پی لے۔ دیکھ! تیرے ہونٹ خشک ہوگئے ہیں، تیری آنکھوں میں حلقے پڑے ہوئے ہیں۔

جلدی سے یہ پانی پی لے۔ آپ نے فرمایا: بھائی! اب کیا پیوں گا؟ ابھی ابھی اپنے چھ ماہ کے بچے کی قبر بنائی ہے جو پیاسا اُٹھ گیا۔ وہ میرے جوان بیٹے کی لاش پڑی ہوئی ہے جو پیاسا اُٹھ گیا۔ وہ میرا بھائی نہر کے کنارے پڑا ہوا ہے، پانی ہی کیلئے گیا تھا۔ اب میں کیا پانی پیوں گا۔ وہ کہتا ہے: پھر کیوں مانگ رہے تھے پانی؟ آپ نے فرمایا: اتمامِ حجت کررہا تھا کہ کل یہ نہ کہیں کہ مانگتے تو دے دیتے۔ مظلوم! یہ تیرا سارا خاندان تباہ ہوگیا، کوئی نہ رہا، آخر تیرا کیا قصور تھا؟

آپ نے فرمایا:

یہ قصور تھا کہ وہ کہتے تھے کہ یزید کی بیعت کرلو۔ میں کہتا تھا کہ فاسق و فاجر کی بیعت نہ کروں گا،دین تباہ ہوجائے گا۔ یہ جو لفظ آپ نے کہے تو وہ ایک مرتبہ گھبرا گیا۔

سر سے پاؤں تک دیکھا اور اس کے بعد کہتا ہے: مظلوم! تیرا وطن کہاں ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: مدینہ۔ ارے کس قبیلے کا ہے؟کہا بنی ہاشم۔ یہ جو کہا تو ایک مرتبہ اُس کا دل دھڑکنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے کیا قربت ہے؟ فرمایا: میرے نانا ہوتے ہیں۔ تیرا نام کیا ہے؟ کہا: حسین ابن علی ۔ یہ نام سننا تھا کہ وہ کہتا ہے کہ جنابِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزندآپ ہی ہیں؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ہاں، میں ہی ہوں۔ اُس نے کہا: آقا! مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں ان لوگوں سے لڑکر اپنی جان فدا کردوں۔ آپ نے فرمایا: تجھے اجازت نہیں دوں گا بلکہ تو اپنے گھر چلا جا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو تو اپنی ایک بیٹی چھوڑکر آیا ہے، وہ تجھے بہت یاد کرتی ہے۔ یا حسین ! سکینہ سلام اللہ علیہا کا بھی کبھی خیال آیاکہ آپ کے بعد کیا ہوگا؟

منسلکات