دینی قیادت ہمیشہ عراقی عوام کے ساتھ ہے

9ربیع الثانی 1441ھ بمطابق 6 دسمبر 2019ء کو نماز جمعہ صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبدالمہدی کربلائی کی امامت میں ادا کی گئی ۔

نماز جمعہ کے خطبہ میں اعلیٰ دینی مرجعیت کا بیان سنایا گیا۔

بسم الله الرحمن الرحيم اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرعوامی تحریک کا دائرہ کار وسیع ہوا اور اس میں مختلف گروہ شامل ہو گئے تو یہ ملکی اداروں میں حقیقی اصلاحات کے لیے صاحبان اقتدار پر دباؤ ڈالنے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو گا، لیکن اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس تحریک کو تشدد، انتشار اور تخریب کاری کی کاروائیوں کی طرف نہ موڑا جائے، اس کے علاوہ اس قسم کے کاموں کا کوئی شرعی و قانونی جواز نہیں ہے اور ان جائز اہداف کے حصول کے لئے قیمتی خون کے بہنے کے باوجود ایسے اقدامات سے اصلاحی تحریک پر منفی اثر پڑیں گے اور وہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جائے گی، لہذا اصلاحات نہ چاہنے والوں کی چالوں سے خبرداررہیں اوراس حوالے سے انھیں کامیاب نہ ہونے دیں۔ مظاہروں کا پر امن اور تشدد و تخریب کاری سے خالی رکھنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے، اسی طرح سیکورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے کہ پرامن مظاہرین کی حفاظت کریں اور انھیں مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مطالبات پیش کرنے کی سہولت فراہم کریں، اور اسی طرح سے مظاہرین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تخریب کاروں کو مظاہرین کا لبادہ اوڑھنے اور مظاہرین کی صفوں میں گھس کر سیکورٹی فورسز اور املاک عامہ و خاصہ پر حملے کونے اور عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دیں۔ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے سیکورٹی فورسز کی مدد، ان کا احترام اور ان کی حوصلہ افزائی ہر ایک کی ذمہ داری ہے، انتشار اور عوامی نظام میں خلل کی صورت میں ہم اس عزیزوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتے، آپ سب نے دیکھا ہے کہ بعض علاقوں میں سیکورٹی فورسز جب اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مشکلات کا شکار ہوئیں تو قبائل کے معزز افراد نے عوامی امن کے تحفظ اور انتشار اور تباہی کو روکنے میں نمایاں کردار ادا کیا، لہذا اس کے لئے ہم ان کے شکرگزار اور قدردان ہیں، لیکن تمام علاقوں میں حالات کی بحالی، امن وامان اور استحکام کو برقرار رکھنے اور سرکاری تنصیبات اور شہریوں کی املاک کو تخریب کاروں کے حملوں سے بچانے کے لیے سیکورٹی فورسز کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہو گی اور تمام احتجاجی اعمال کے حوالے سے انھیں اپنی پوری پیشہ ورانہ مہارت کو استعمال کرنا ہو گا تاکہ گذشتہ واقعات کے سانحات کا اعادہ نہ ہو۔ ایک بار پھر گزشتہ دنوں میں بے گناہوں کا خون بہائے جانے اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے جانے کی مذمت کرتے ہیں، تمام متاثرہ فریقوں کو ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے قانونی ذرائع اپنانے کی تلقین کرتے ہیں، اور ہم عدلیہ سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جو بھی مجرمانہ کاموں میں ملوث ہے -چاہے اس کا تعلق کسی بھی فریق سے ہے- قانونی محاسبہ کیا جائے اور اسے سزا دی جائے۔ پھر اُن لوگوں سے خبردار کرتے ہیں جو ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں اور اصلاحی مطالبات اور مظاہروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخصوص اہداف حاصل کرنا کہ جو عراقی عوام کے اعلی مفادات اور حقیقی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح دینی قیادت بغیر کسی تفریق کے تمام عراقی عوام کے ساتھ ہے، اور ہر ممکن حد تک وہ عراقی عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے، اصلاح کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین میں شامل کسی بھی گروہ کو دینی قیادت کا نام استعمال نہیں کرنا چاہیے تاکہ دینی قیادت صرف ایک گروہ کے لئے شمار نہ ہو۔ آخر میں امید کرتے ہیں کہ شہریوں کی خواہشات کے مطابق اور کسی بھی بیرونی مداخلت سے دور رہتے ہوئے نئی حکومت کے سربراہ اور اس کے ممبران کا انتخاب آئینی مدت کے اندر مکمل ہو جائے گا۔ یہ بات یاد رہے کہ دینی قیادت اس سلسلے میں کسی بھی گفتگو میں فریق نہیں ہے، اور نہ ہی اس کا کسی بھی طرح سے اس میں کوئی کردار ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ وہ سب کو اس کام کی توفیق عطا فرمائے جس میں ملک و عوام کی بھلائی ہے، اور ہمیں دشمنوں شر اور اذیت سے بچائے۔ بیشک وہ سننے اور دعاؤں کے قبول کرنے والا ہے

منسلکات