17 ربیع الاول 1441ھ بمطابق 15 نومبر 2019ء کو نماز صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مطہر حضرت عباس علیہ السلام کے متوالی علامہ سید احمد صافی کی امامت میں ادا کی گئی جس کے خطبہ جمعہ میں نجف اشرف سے دینی مرجعیت کی طرف سے ارسال کئے گئے خصوصی بیان کو پہنچایا
بسم الله الرحمن الرحيم ایک بار پھر اعلی دینی قیادت موجودہ مظاہروں اور اصلاحات کے مطالبے کے حوالے سے اپنی موقف کو چند نقاط کے ضمن میں واضح کر دینا چاہتی ہے: 1: دینی قیادت مظاہروں کی حمایت کرتی ہے اور مظاہروں کے پُرامن رکھنے اور پرامن مظاہرین کو قتل کرنے، زخمی کرنے، اغواء کرنے اور دھمکانے وغیرہ سے پاک رکھنے کی تاکید کرتی ہے، اور اسی طرح سے سیکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات اور نجی املاک پر حملوں سے گریز کی تاکید کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ جو بھی ان غیر شرعی و غیر قانونی کاموں میں سے کسی کا بھی مرتکب پایا جائے عدالتی قوانین کے مطابق اس کا محاسبہ کیا جائے اور اس میں سستی کرنا جائز نہیں ہے۔ 2:حکومت اپنی قانونی حیثیت (آمرانہ نظام نہ ہو تو) عوام ہی سے حاصل کرتی ہے عوام کے علاوہ اور کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کو قانونی حیثیت دے سکے، اور لوگوں کی رائے عمومی خفیہ رائے شماری سے ظاہر ہوتی ہے بشرطیکہ اگر اس کا منصفانہ اور شفاف انعقاد ہو، یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جلد سے جلد انتخابات کے لیے منصفانہ قانون سازی شہریوں کے انتخابی عمل پر اعتماد کو بحال کرے گی اور سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو شامل نہیں ہو گی، اس سے پچھلے کئی سالوں سے ملک پر حکمرانی کرنے والی قوتوں کو تبدیل کرنے کا ایک حقیقی موقع فراہم ہو گا بشرطیکہ اگر عوام انھیں نئے چہروں سے تبدیل کرنا چاہتی ہے، ایسا قانون بنایا جائے جو رائے دہندگان کو اس طرح کا موقع نہ دے جو ناقابل قبول اور بیکار ہو۔ اسی طرح الیکشن کی نگرانی کرنے والے کمیشن کے لیے بھی ایک نیا قانون پاس کیا جانا چاہئے جس سے اس کی غیر جانبداری، پیشہ ورانہ مہارت، ساکھ اور عوامی مقبولیت کی توثیق ہو سکے۔ 3:اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے عوامی مظاہروں کے آغاز کو کافی عرصہ گزرنے اور سینکڑوں شہداء اور ہزاروں زخمیوں کا لہو اس راہ میں بہہ جانے کے باوجود ابھی تک مظاہرین کے مطالبات کو اہمیت نہیں دی گئی خاص طور پر بڑے بدعنوانوں کو پکڑنے اور ان سے لوٹی ہوئی رقم کی وصولی، عوامی پیسے سے مخصوص گروہوں کو دی گئیں غیر منصفانہ مراعات کے خاتمے، اور مخصوص عہدوں پر تعیین کے لیے بندر بانٹ سے دوری (جیسے مطالبات کے لیے کچھ نہیں کیا گیا)، اور یہ بات مظاہرین کے مطالبات کو کم سے کم حد تک پورا کرنے کے لئے بھی موجودہ سیاسی قوتوں کی اہلیت یا سنجیدگی کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے، اور یہ ان کے ہاتھوں سے کچھ حقیقی اصلاحات کر کے اعتماد پیدا کرنے کے مفاد میں نہیں ہے۔ 4:اس سے پہلے عوام اصلاحات کا مطالبہ لیے ہوئے اس طرح مظاہروں کے لئے کے لیے کبھی نہیں نکلے اور نہ ہی بھاری قیمت چکانے اور اتنی قربانیوں کے بعد بھی اس طرح سے مظاہروں کو جاری رکھا، اور یہ سب صرف اس لیے ہے کہ انھیں دن بدن بڑھتی ہوئی بدعنوانی، ہر جانب پھیلتی ہوئی خرابیوں، مختلف گروہوں پر مشتمل حکومتی طاقتوں کی مرضی سے وطن کو مال غنیمت کی طرح آپس میں بانٹنے اور ایک دوسرے کی بدعنوانی کو چھپانے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا، جبکہ امور ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں، ملک کے پاس وافر مالی موارد ہونے کے باوجود باعزت زندگی گزارنے کے معمولی وسائل بھی عوام کی اکثریت کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں۔ جن کے پاس ہاتھوں میں حکومت ہے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تاخیر اور سستی سے حقیقی اصلاح سے بھاگ سکتے ہیں تو غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ ان احتجاجات کے بعد وہ کچھ بالکل نہیں ہو گا تو اس پہلے ہمشہ ہوتا رہا ہے لہذا وہ متنبہ رہیں۔ 5: عراقی عوام کی طرف سے چلائی جانے والی اصلاح کی جنگ ایک قومی جنگ ہے، اور عراقیوں کو ہی اس کا بھاری بوجھ اٹھانا ہے، لہذا کسی بھی بیرونی طاقت کو اس معاملہ میں مداخلت کی اجازت دینا جائز نہیں ہو گا بلکہ بیرونی مداخلت بڑے خطرات کو جنم دے گی اور یہ ملک بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کے مابین تنازعات اور حساب چکانے کا میدان بن جائے گا اور اس میں سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہی ہو گا۔
اترك تعليق