22ذوالقعدۃ 1440ھ بمطابق 26/7/2019ء کو نماز جمعہ صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مطہر حضرت عباس علیہ السلام کے متولی علامہ سید احمد الصافی امامت میں ادا کی گئی جس میں نوجوانوں کی تربیت کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔
قبل این کہ اس موضوع پر روشنی ڈالی جائے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ جس معاشرے میں نوجوان نسل کی باتربیت کثرت ہوگی وہ معاشرہ کثرت سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا برخلاف معاشرہ کہ جو اس کے مقابل معاشرے میں غیر تربیت نوجوان طبقہ ہوگا یا کمی ہوگی سست روی کا شکار ہوگا ۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر معاشرتی ضروریات کو ترک کر دیا جائے اور اس کے ساتھ بزرگان کو کوئی اہمیت نہ دی جائے اور اسی ہدف کو اول و آخر قرار دیا جائے ۔
کیونکہ بعض حالات میں حدیث شریف میں اس کے برخلاف وارد ہے کہ امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا " میں کسی مسئلے میں رائے کی فوقیت ایک بزرگ انسان کی ایک کم عمر انسان کے مقابلے میں "
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نوجوان طبقہ آئندہ کے لئے ایک راہنما ذخیرہ ثابت ہوتا ہے ۔
پس اسی لئے اس نوجوان طبقہ کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور خصوصی اہتمام کیا جانا چاہیئے یہیں یہ موضوع پیش نظر ہے کہ کون اس ذمہ داری کو اٹھانا چاہتا ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے ؟
بے شک یہ ایک مختلف مسئلہ ہے لیکن اس مسئلے میں مشترکہ کوششوں کے ساتھ اس پر قابو پانا ممکن ہے کیونکہ جہاں تک حکومتی اداروں کا تعلق ہے تو انہیں خصوصی تربیتی فضاء کو فراہمی کو ممکن بنایا جاسکے کیونکہ یہی وہ نسل ہے جو آئندہ کے لئے قوم و ملک کی ترقی میں حصہ لے گی ۔
اس کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اہل خانہ پر بھی ہیں کہ گھریلو توجہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مناسب فضاء فراہم کی جائے تاکہ مستقبل کی صحیح منصوبہ بندی کا جاسکے ۔
جہاں موضوع خود نوجوان نسل کی تربیت کی بات ہے کہ وہ یاد رکھیں کہ یہ بات صحیح کہ خود اعتمادی ایک انتہائی اہم عنصر ہے مگر ہر بات میں خود اعتمادی بھی صحیح نہیں بلکہ یہاں دو انتہائی اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں
پہلا یہ کہ انسان کو اپنی شجاعت و حوصلہ و اپنی عقل و دانشمندی کے استعمال پر خود اعتمادی ہونی چاہیئے لیکن اس کے ساتھ ہی ہر کام بلا مشورہ بھی درست نہیں ۔
مثال کے طور ہر اگر ہم سیکھتے ہیں کہ دو درخت ہیں ان میں سے ایک ثمر آور ہے اور دوسرا بے ثمر ہے اگر ملاحظہ کریں تو اس روز جب سے بے ثمر درخت بویا گیا تا 100 سال تک وہ بے ثمر ہی رہیگا اور اس سے ثمر ہے ہونے کی امید نہیں کرسکتے ماسوائے کچھ سایہ کرنے کے۔
اس کے برعکس باثمر شجرہ ایک وقت آتا ہے جب اسے خصوصی توجہ اور اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے جس کا ثمرہ اس کے پھل آوری کی صورت میں ملتا ہے وگرنہ بلاتوجہی کا شکار ہوکر بے ثمر ہوجاتا ہے۔
اسی لئے ضروری ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل جس موڑ جس راہ پر گامزن ہے اسے ہماری راہنمائی کی ضرورت ہے اور ہم نہیں چاہیں گے کہ 20 سال کے بعد ہماری نوجوان نسل عصر حاضر میں ہوئی بے توجہی پر نادم ہو۔
اسی لئے ہم سب پر راہنمائی اور تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے
اسی لئے نوجوان نسل کی راہنمائی کے لئے ضروری ہے ۔
اول : جب تربیتی موضوع کو آپ کے سامنے بیان کیا جائے تو اس کا مطلب سوائے آپ کی بھلائی کے کچھ نہیں کیونکہ جب آپ کے والدین آپ سے مخاطب ہوں یا آپ کے استاد محترم آپ سے مخاطب ہوں تو ان کی نصیحت کو ضایع نہ کریں بلکہ اس پر تامل کریں اور اس نصیحت پر بقدر امکان ضرور عمل کریں کیونکہ وہ بھی آپ کی طرف نوجوانی کی زندگی گزار چکے ہیں اور وہ علم رکھتے ہیں کہ آپ کی بہتری کس میں ہے ۔
آپ جوان نسل ہیں جس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہے برخلاف ایسے لوگوں کے جن میں انکار اور بے ہمت ہوتے ہیں کیونکہ پہلی قسم میں آپ کا مستقبل پوشیدہ ہے اور دوسری قسم میں آپ کے مستقبل کا ضیاع ہے
خبر دار رہیں کہ بلا وجہ کسی بھی کام سے انکار کرنا صحیح نہیں اور نہ ہی ان والدین کی نصیحت کے خلاف کہ جنہوں نے آپ کو جنم دیا ہے کام کریں ۔
اترك تعليق