شبہہ:
کہا جاتا ہے کہ مجالس اور امام بارگاہوں میں ذبح کیا جانے والا جانور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ذبح نہیں کیا گیا بلکہ غیر اللہ کے لئے کیا گیا ہے اس لئے اس کا کھانا حرام ہے؟
جواب:
1۔ اسلام میں حرام ذبح کیا گیا ذبیحہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے "اور ایسے جانوروں میں سے نہ کھاؤ جن پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہواور یہ کھانا گناہ ہے"
تو جو طعام مجالس اور امام بارگاہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے انہیں بوقت ذبح اللہ تعالیٰ کے دینی احکام کے مطابق ذبح کیا جاتا ہے اسی لئے ایسا اشکال یہاں قابل قبول نہیں کہ ذبیحہ غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہے
2۔ کتاب فتح المجید شرح کتاب التوحید کے حاشیہ میں عبدالعزیز ابن باز نے لکھا ہے کہ شیخ حامد کی مراد اگر نقود اور کھانا اور حیوانات جو انبیاء صالحین کے نام پر ہدیہ کئے جاتے ہیں کا لینا حرام ہے تو یہ ان کی رائے صحیح نہیں ۔
3۔ اہل تشیع جو کھانا اپنے گھروں میں تیار کرتے ہیں اس نیت کے ساتھ کہ اہلبیت علیہم السلام کے نام سے تقرب الہیہ کے لئے تقسیم کرتے ہیں وہ نہ صرف باعث ثواب ہے بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ ایسے کیا کرتے تھے اور کافی مقامات پر ایسا کرنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ نے ترغیب فرمائی ہے جیساکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے سوال کیا اسلام میں خیر کا کام کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا چاہے جانتا ہو یا انجان ہو کھانا کھلاؤ اور سلام بھیجو۔
پس ایسے فتنہ پرور لوگ جو کم علم لوگوں کے درمیان شبہہ پھیلانے کو اپنا روزگار حیات بنائے ہوئے ہیں کہ اہل تشیع غیر اللہ کے لئے ذبح اور تقسیم کرتے ہیں اور حرام ہے صرف ایک افسانوی جھوٹ ہے کیونکہ دین اسلام کے قوانین کے مطابق اہل تشیع میں بھی ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے اسماء مقدسہ کے بغیر ذبیحہ حلال ہے اور دیگر تمام شرائط کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو بخلاف اینکہ بعض مسالک نے اہل کتاب کے ذبح کئے گئے کو حلال کیا ہے اور خود اہل تشیع پر غیر اللہ کے لئے ذبح کرنے کی بھتان تراشی کرتے ہیں
اترك تعليق