تمام لوگوں کے علم میں ہے کہ حالیا ملکی حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں اور ہمیں مختلف صورتوں میں مشکلات اور بحران کا سامنا ہے اور دینی مرجعیت نے بارہا ان مشکلات کے حل کے بارے میں راہنمائی فرمائی مگران توجیہات کی بناء پر اور اصلاحات پر خصوصی توجہ نہ دی گئی کہ معاشرے میں کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کی فراہمی کی جاسکے ۔
13 ذو القعدہ 1439ھ کو نماز جمعہ حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں نماز جمعہ حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام کے متولی علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی کی امامت میں ادا کی گئی ۔
دینی مرجعیت نے بارہا سرکاری حکام اور سیاسی راہنماؤں کے مخاطب کرتے ہوئے باور کرایا کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور شخصی منفعت اور باہمی ناچاقیوں کہ جن کا مقصد فتنہ پروری کے علاوہ کچھ نہیں سے پرہیز کریں اور اس ملک کی ترقی میں متحد ہو کر اہل وطن کی خدمت کریں اور اصلاحات کی طرف خصوصی توجہ دیں اور اپنی پارٹیوں میں موجود کرپٹ لوگوں کی حمایت ترک کریں۔
اس بات سے انہیں آج سے تین برس قبل اسی منبر سے خطبہ جمعہ میں آگاہ کیا گیا تھاکہ جو لوگ اصلاحات کو قبول نہیں کر رہے یا اس بات کے منتظر ہیں کہ مطالباتی تحریک سرد ہوجائیں گی ۔۔۔۔ انہیں یہ جان لینا چاہئیے کہ اصلاحات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔۔۔۔ اور اگر مطالباتی احتجاجات سرد بھی ہو جاتے ہیں تو ایک مدت کے بعد دوبارہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوتے ۔
اور اسی طرح اہل وطن کو مخاطب کیا گیا تھا کہ انتخابات کے ایام سے پہلے کہ اصلاحات اور تغیر آپ کے ہاتھ میں ہے جو اس وقت تمام اہل وطن کے لئے ایک ضرورت کی صورت اختیار کرچکا ہے اور یہ آپ کے ہاتھوں میں اگر صحیح اشخاص کا انتخاب کیا تو اصلاحات ممکن ہیں اور اس کے لئے سب سے بہترین مثال اس شخص کو منتخب کرنا ہے جو آپ کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہوجائے اور آپ کے لئے ہر ممکن خدمت فراہم کر سکے ۔
اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے دینی مرجعیت نے ہدایت دیں کہ ووٹ کا احترام کیا جائے اور نہ ہی غلط استعمال کیا جائے
اور الیکشن کمیشن۔جیساکہ دستور میں مقرر ہے۔ کسی بھی سیاسی جھکاؤ کی طرف مائل نہیں ہونا چاہئیے اور خبر دار کیا کہ ان دو شرائط کی ناپیدگی اہل وطن کی امیدوں کو الیکشن کمیشن سے اٹھا لے گی اور آئندہ کے لئے متنفر ہوجائیں گے
لیکن جیسا کہ ہم تمام جانتے ہیں کہ جس طرح دینی مرجعیت نے چاہا ویسا نہ ہوا اور مشکلات بجائے حل ہونے کے بڑھتی چلی گئیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور زرعی اور صنعتی پیداوار میں کمی ہوتی چلی گئی اور ان کا سبب حکومتی اداروں میں غیر سنجیدہ اقدامات اور کرپشن بنے ۔۔۔
اور آج اس کے علاوہ ما بعدایں کہ ماضی میں جو کچھ ہوا مظاہرین پر تشدد کی کاروائیاں اورامن و امان بحال کرنے والے اداروں پر تجاوز اور املاک عامہ اور خاصہ کی تباہی ناقابل قبول ہے اور افسوس کے ساتھ کہ بعض مقامات پر تصادم ایک خونی صورتحال اختیار کرگیا اور یہاں تک کہ اموات واقع ہوئیں پس چاہئیے کہ ان دو امور پر توجہ دی جائے تاکہ صورتحال ایک پرامن فضاء کی طرف بڑھ سکے
امر اول
حالیا حکومت کو چاہئیے کہ جلد از جلد مطالبات کو تسلیم کرے اور ان مشکلات کو حل کرے
امر دوم
نئی حکومت کی تشکیل جلد از جلد کی جائے اور اس کی تشکیل میں مؤثر صلاحیتوں اور ایمانداری کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور مالی و اداریاتی کرپشن کی صورت میں وزیراعظم بذات خود ذمہ دار قرار ہوگا اور اسے چاہئیے کہ ان مشکلات کو حل کرے کیونکہ یہی مسائل اس ملک کی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں اسی لئے کرپٹ لوگوں کے خلاف اعلان جنگ کرے ۔
اور نئی آنے والی حکومت ان نقاط کی روشنی میں اپنی حکومت وضع کرے :
1۔ قانونی تجاویز کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور خصوصا جو بعض اشخاص کو خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی شق ہیں اس میں عدل سے کام لیا جائے ۔
2۔ دستور میں موجود قانونی سقم کا ازالہ کیا جائے کہ جنہیں استعمال کرتے ہوئے بعض فاسدین اپنے شخصی مفاد حاصل کرتے ہیں اور احتسابی اداروں کو خود مختار کیا جائے اور ان کے اختیارات میں وسعت دی جائے تاکہ کرپٹ لوگوں کا احتساب ممکن ہو۔
3۔ وزراء کے اختیار میں اور دیگر حکومتی روزگاروں میں سخت ضوابط پر عمل کیا جائے تاکہ نااہل افراد کی دسترس سے املاک عامہ دور رہے اور یہی ایس عناصر ہیں جو اہل وطن کے ساتھ مذہبی اور سیاسی تفریق روا رکھتے ہیں اور اپنے اور اقرباء پروری کو فروغ دیتے ہیں
4۔ مالیاتی ادارے کو حکم دیا جائے کہ گذشتہ حکومتوں کے بجٹ کی جلد از جلد تدقیق مکمل کرے اور یہ تحقیق وزارتی سطح تک ہو اور اموال عامہ میں کسی قسم کی کرپشن کی رپورٹ پر محاسبہ کیا جائے
اور آنے والے پارلیمنٹ کو چاہئیے کہ جلد از جلد اصلاحی منصوبوں کو تشکیل دے اور ان پر عمل کرے وگرنہ عدم نتائج کی صورت میں عوام کے سامنے پرامن مظاہرات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جس کے ذریعے حکومتی ذمہ داران سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں
اور اس صورت میں واقعہ کی حقیقت کا ایک علیحدہ روپ ہوگا۔
اترك تعليق