اس دنیا فانی میں جہاں ہر گوشہ حیات خود اپنی ذات میں ایک معجز نما ہے اور زیر فیضان رحمت ہے کہ جس کو ظرف انسانی شمار نہیں کرسکتا اس کے ساتھ ایسے معجزات کہ جن کے اظہار کی وجہ راہنمائی بشریت ہے کے ساتھ ایسی ہستیوں کی بلندی و استقامت کو ظاہر کرنا تھا کہ جنہوں نے رشد و ہدایت کہ اس کٹھن دور میں خود تک کو قربان کیا ۔
موضوع مذکور میں فقط ہستی بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں کہ جو اس دنیا ئے فانی میں دو مرتبہ تشریف لائے کہ ایک مرتبہ 3 شعبان 4ھ کو اور دوبارہ ظہر عاشوراء کو اس دنیامیں جب طغات نے آپ علیہ السلام کا سر اقدس تن سے جدا کیا!
جب زمین کربلاء میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنے تمام ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا یہ ایک ایسی جنگ تھی جس سے امام مظلوم علیہ السلام نے تادم آخر اجتناب فرمایا تاکہ امت محمدیہ کو آنے والے اس فتنے سے آج کے اس دور میں اسلام دشمنی کا روپ دھار رہا ہے سے محفوظ رکھا جاسکے اس لئے آپ علیہ السلام نے جان دے دی مگر کیا ہی عظمت و بلند مرتبہ اس کے عوض کہ جہاں آپ علیہ السلام نے مقام الہیٰ کے لئے اپنی جان دی وہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارادہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو ہمیشہ کے لئے حیات جاودانی بخشنا تھا۔
اترك تعليق