تاریخ کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ روز عاشور اہل بیت نبوت علیہم السلام بالخصوص حضرت امام حسین علیہ السلام پر ایک انتہائی امتحان الہیہ کا وقت تھا جن میں سے چار ایسے روز عاشور مواقف تھے کہ جس میں حضرت امام مظلوم علیہ السلام جیسے صابر پر انتہائی سخت تھے ۔
جن میں سے روایات میں سے ایک سخت موڑ اس وقت جب حضرت عباس علیہ السلام زین سے زمین پر آئے اور اگر روایات میں موجود الفاظ کا خلاصہ کیا جائے تو یہی بیان کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کے جسد اطہر میں رمق حیات اور لوازم حیات سے عاری تھا ۔جس پر کلام حضرت امام سیدالشہداء علیہ السلام کا گریہ ہے کہ "اب میری کمر ٹوٹ گئی اور میری طاقت ختم ہوگئی"
دوسرا موڑ جس نے قلب امام حسین علیہ السلام پر اثر کیا شہادت حضرت علی اصغر علیہ السلام تھی ۔ صاحب کتاب مروج الذہب میں المسعودی ، صاحب مقاتل الطالبین اور تاریخ طبری میں بھی روایت ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے آخری وقت میں حضرت علی اصغر علیہ السلا م کو میدان کربلاء میں اتمام حجت کے لئے لائے جس کے بدلے میں حیوانات کے شکار میں استعمال ہونے والا تیر جواب میں ملا ۔
اور تیسرا موڑ جب حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے لخت جگر کے لاشہ پر آئے اس حالت میں کہ جب شہزادہ نے آپ سے پانی مانگا تو آپ مہیا نہ کرسکے یہاں تک کہ شہزادہ کے جگر پر حصین بن نمیر لعنت اللہ علیہ نے وار کیا ۔
آخری وہ لمحہ تھا کہ جب آپ اپنے عزیز بھائی کی آخری نشانی شہزادہ قاسم علیہ السلام کی لاش کو مقتل میں جمع کیا اور خیام میں لے کر آئے اور اس حالت میں کہ ضعف کی وجہ سے کمر جھکی ہوئی تھی ۔
اترك تعليق