حرم مطہر حضرت امام حسین (ع) کے متولی اور اعلی دینی قیادت کے خصوصی نمائندے علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی نے 27 صفر 1439هـ (17 نومبر 2017ء) کو نماز جمعہ حرم مقدس حسینی میں امامت کی اور دوسرے خطبہ میںکہا اچھا شہری کون ہوتا ہے؟ اچھا شہری بننے کے لئے شہری کو کن اصولوں اور مقومات کی پابندی کرنی چاہئے؟ سادہ الفاظ میں اچھا شہری وہ ہوتا جو بھلائی اور فائدہ مندہوتا ہے، جو شہری تعمیر و ترقی، اور خوشحالی میں حصہ لیتا ہے اور دوسروں کے ساتھ امن اور محبت کے ساتھ رہتا ہے وہی اچھا شہری ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس بدترین شہری وہ ہوتا ہے جو برائی اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کا مصدر ہوتا ہے اور اپنے ملک کی خوشحالی اور ترقی میں شرکت کرنے میں سستی دکھانے والا اور دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی اور امن کے لئے خطرہ کا مصدر بننے والا ہی برا شہری ہوتا ہے. اچھے شہری کو صالح عدات کی صفات اپنانے کے لیے احادیث میں مذکور بنیادی اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے اچھا شہری بننے کے تمام اصولوں کا تعلق اپنے وطن اور اس کی عوام کے بارے میں شہری پر لاگو ذمہ داریوں سے ہے ان ذمہ داریوں کو نبھانا ہی اچھے شہری کی عکاسی کرتا ہے. قطع نظر اس کے کہ ریاست اور حکومت شہریوں کے حقوق ادا کرتی ہے یا نہیں۔
یہی عزم اس کے اچھے شہری ہونے کا ثبوت ہے،کچھ لوگ اپنی تقصیر کی علت بیان کرتے ہیں کہ اگر مجھے حقوق نہیں ملے تو دوسرے کے کیوں ادا کروں؟یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے جب کہ ایک شہری کو وہ تمام حقوق جن کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور اور اپنی ملک و قوم کے سامنے جوابدہ ہے ادا کرنے چاہیئں۔جبکہ عدم ادائیگی نہ صرف بذاتہ بلکہ دیگر افراد کے لئے بھی ضرر کا سبب بنتاہے۔ اچھے شہری کے چار اصولوں مختصر اً ذکر کرتے ہیں: پہلا اصول:اپنے منصب اور عہدہ کی مناسبت سے قومی اور وطنی احساس ذمہ داری۔ دوسرا اصول: اچھا شہری ہونے کی ثقافت تیسرا اصول: امن و امان، صحت، تعلیم، بلدیہ اور دوسرے شعبوں کی طرف سے عوام کے لیے بنائے گئے قوانین کا احترام اور پابندی۔ چوتھا اصول: عوامی املاک (کہ جنہیں بعض لوگ حکومتی املاک بھی کہتے ہیں) کی حفاظت کرنا کیونکہ حقیقت میں یہ املاک حکومت کہ نہیں بلکہ ساری عوام کی ہوتی ہیں لہٰذا ان کی حفاظت میں کوتاہی یا ان کا ذاتی استعمال پوری عوام کے مال کو چوری کرنا ہے اور ان کے مال کو غصب کرنا ہے چاہے یہ املاک کسی سکول، سڑک، حکومتی ادارے کی شکل میں ہوں یا کسی دوسری شکل میں۔
لہذا اس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ اموال عامہ میں تصرف کس طرح ہونا چاہیئے۔
اچھی شہریت کے اصولوں میں: ایک دوسروں کے ساتھ ہوجانے والے اختلافات اور مشکلات کو افہام و تفہیم اور گفت و شنید سے حل کرنا بھی ہے۔اچھے شہری کے لیے شدت پسندی، اور دوسروں پر چڑھائی کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اگر میرا کسی دوسرے شخص کے ساتھ اختلاف ہو جاتا ہے تو میرے لیے ضروری ہے کہ میں اس اختلاف کے حل کے لیے متعدد طریقوں کو اپناؤں میں سب سے پہلے گفتگو اور افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کروں گا اگر اس سے کوئی فیصلہ اور نتیجہ نہ نکلا تو اثر و رسوخ رکھنے والے دانا اور سمجھ دار لوگوں کو اس مسئلے کے حل میں مدد کے لیے کہوں گا اور اگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو تو حکومتی قوانین کا سہارا لوں گا۔ باعث افسوس ہے کہ بعض دفعہ انتہائی معمولی اور بےکار امور کے لیے شدت اور سختی کا سہارا لیا جاتا ہے کہ جس میں سوائے اپنی طاقت کی نمود و نمائش کے کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس اصول کو سب سے پہلے اپنے گھر میں اور پھر بازار، مجتمع عامہ، حکومتی اداروں اور دیگر مقامات پر اپنے اوپر نافذ کریں چاہے اختلاف دو افراد کے درمیان ہو یا دو قوموں کے درمیان۔
بعض دفعہ دو قبائل کے درمیان جھگڑا شروع ہو جاتا ہے کہ جس کے برے اثرات متعدد شہروں کے لوگوں پر پڑتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ایک دفعہ ایک قبائلی سردار کی ایک فرسخ زمین کی وجہ سے جھگڑا شروع ہوا اور اس میں چار افراد مارے گئے یہ بات صحیح نہیں ہے اور نہ عقل اس کی اجازت دیتی ہے کیا ایسا کرنا عقلمندی ہے؟ یا یہ اسلام کے قوانین کے مطابق ہے؟ کہ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے بہت سے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اسلام ایسے اصولوں کی مذمت کرتا ہے جن کا نتیجہ یہ نکلے۔ دوسروں کے ساتھ اختلاف ہونے کی صورت میں اسے سختی اور شدت پسندی سے پرہیز کیا جائے...... کسی بھی اختلاف کو دور کرنے کے لیے اور مسئلے کے حل تک پہنچنے کے لیے غصے، مار پیٹ اور شدید رویہ کی جگہ گفت و شنید اور افہام و تفہیم کو اختیار کرنا چاہیے۔ کچھ ایسے طریقے ہیں جو قوم کے بیٹوں کے درمیان اچھے تعلقات کو قائم کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، قابل غور بات ہے کہ سماجی نیٹ ورکنگ سائٹس کے باعث لوگ ایک دوسرے کو ناقابل اعتماد سمجھتے ہیں، اور ایک دوسرے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں جلدی بازی سے کام لیتے ہیں اور ایسا کئی مرتبہ اصحاب علم و دین و اصحاب مناصب میں نظر آیا ہے۔ اکثر لوگ جھوٹی خبروں، الزامات اور ہتک آمیز چیزوں کی اشاعت کرتے ہیں، اور سوشل میڈیا کسی بھی ایسی چیز کو بہت مختصر وقت میں بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے. ان لوگوں کو کس طرح معصوم لوگوں کے درمیان دشمنی اور نفرت پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے، قیامت کے دن ان کی حیثیت کیا ہوگی؟اس شخص کا کیا حال ہوگا جس کے بارے میں دروغ گوئی سے کام لیا گیا اور اگر بعد میں اپنے غیبت کرنے والے کا علم ہوا تو ۔۔۔۔۔اسی طرح دشمنی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں جو خانوادہ اور وہاں سے مابین قبائل بنیاد پڑتی ہے ۔ بہرحال اچھا شہری وہ ہے جو دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں جلد بازی یا تعصب سے کام نہیں لیتا.جیسا کہ اسلام معاشرے کے افراد کے درمیان محبت اور احترام کے تعلقات کو برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے، جس کی وجہ سے ایک مضبوط معاشرے کی تعمیر ممکن ہے۔ انسان کو چاہیے کے وہ دوسروں کے لیے بھی وہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے،اور دوسروں کے لیے بھی اس چیز سے نفرت کرے جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، چاہے کوئی عوامی جگہ ہو یا کوئی سرکاری ادارہ ہو، یا سکول ہو، یا کوئی دینی ادارہ ہر جگہ بڑوں کا احترام ہونا چاہیے اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ ایسے انسانوں کی قدر کرنا جو کہ معاشرے میں انتہائی اہم خدمت سرانجام سے رہے ہیں باوجودیکہ، اور خاص طور وہ لوگ زیادہ عزت اور احترام کے حق دار ہیں بغض نظر کہ ان سے بعض اوقات خطا سرزد ہوجاتی ہے مگر معاشرے میں بہت اہم امور سر انجام دے رہے ہیں،مثال کے طور پر ڈاکٹر، اساتذہ، پروفیسرز، مفکر، مصنفین اور اس کے علاوہ تمام وہ لوگ جو معاشرے میں اہم خدمات فراہم کر رہے ہیں، ان کا احترام سائنس، ثقافت اور علم کا احترام ہے اور جن معاشروں میں سائنس، ثقافت اور علم و ادب کا احترام ہے وہ معاشرے دنیا میں اسی عنوان سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ماحولیات کی حفاظت اور مختلف شعبوں میں صفائی کی اہمیت ایک معاشرے کی جدت پسندی اس کی صفائی اور ماحول کے تحفظ سے جانی جا سکتی ہے. ماحول اور گلیوں، بازاروں اور عوامی جگہوں پر گندگی ایک ایسے ملک کے لئے ناگزیر اور ناخوشگوار ہے جو ایک قدیم تاریخ اور تہذیب رکھتا ہو، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ملک کو ہر لحاظ سے صاف رکھیں۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ یہ میری ذمہ داری نہیں بلکہ فلاں حکومتی و بلدیاتی محکمے کی ذمہ داری ہے۔
صفائی بہت ضروری ہے چاہے معمول کے دن ہوں یا زیارت کے دن، کیونکہ یہ ہر فرد کے انفرادی طور پر عقیدے اور تہذیب کو اچھا شہری قرار دیتی ہے. اسی طرح ہمیں اپنی عمارات، سڑکوں، اسکولوں اور عوامی جگہوں کو صاف کرنا ہوگا، سبز خالی جگہوں کی حفاظت، جو کے ایک فرد کو انفرادی طور پر،پورے معاشرے اور پورے ملک کو ہر وقت فائدہ دیتی ہیں، کیونکہ اسلام بھی اس بات پر بہت زور دیتا ہے۔ ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم ہمیشہ اچھے اور نیک شہری رہیں تاکہ ہم معاشرے کے لئے اچھے اور فائدہ کا ذریعہ بن سکیں. وہ بالکل سننے والا اور جواب دینے والا ہے اور ہماری دعاوٴں کو قبول کرنے والا ہے۔ والحمد لله رب العالمين وصلى الله على محمد وآلہ الطيبين الطاہرين
اترك تعليق