بس فارمیلٹی پوری کرنی ہے مجھے لگتا ہے ہم لوگ بس فارم بھر رہے، فارمیلٹی پوری کر رہے ہیں! ہم اپنوں کی شادیوں کی تقاریب میں محبت کی بجائے اس وجہ سے شرکت کرتے ہیں کہ نہ جائیں گے تو دنیا باتیں بنائے گی، دوستوں کیخوشیوں میں اس لئے شرکت کرتے ہیں کہ انہوں نے ہماری یا ہمارے بیٹے کی شادی میں شرکت کی تھی، دین کی بات کریں تو جمعہ اس لئے پڑھتے ہیں کہ نہ پڑھا تو گھر والے کیا کہیں گے، عید نماز نہ پڑھی تودفتر میں ساتھ کام کرنے والا پڑوسی جو خود بھی صرف عید نماز ہی ادا کرتا ہے، مجھ پر طعن کرے گا.. ہم دل و خلوص نیت سے بھت کم کام ہی انجام دیتے ہیں۔
ابھی جشن آئمہ (علیہم السلام) کو ہی لے لیجئے، شعبان کا مہینہ آیا کئی خوشیاں لایا اور گذرتا چلا گیا اسی طرح 15 شعبان بھی آئی اورگذر گئی، سب نے عریضے لکھے اور با آواز بلند "العجل العجل" کے نعرے لگائے جنکو شب و روز میں شاید ہی کبھی یادآیا ہو کہ ہمارے زمانے کے امام (عج) ہم میں موجود ہیں اور ہمارے اعمال پر ناصرف نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ ہمارے سیاہ اعمال انکی آنکھوں میں آنسوں کا باعث بھی بنتے ہیں. اس سال سب کے عریضے اکٹھے کرنے کی ڈیوٹی لگی تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک ڈھیر اکٹھا ھوگیا.. پھر اپنے گذشتہ لکھے گئے عریضے یاد آئے جن میں دنیاوی فرمائشوں کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تھا.سوچا کے ہاں اچھا ہی کیا اپنے امام سے نہیں کہیں گے تو کس سے کہیں گے. لیکن سوچا کہ اس بار تومعرفت زیادہ ہوگئی ہے اس بار امام کو لکھوں کہ مولا بس آجائیں ظلم بہت بڑھ گیا ہے اور اس ملّت کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں. سوچا کے واہ امام خوش ہوں گے کہ جہاں سب نے دنیاوی چیزیں مانگی ہیں وہاں مجھے بلانے والے اور العجل کہنے والے بھی تو ہیں.مگر کیا فرق ہے میرے اس عریضےاور ان خطوط میں جو کوفیوں نے امام حسین (ع) کو لکھے تھے.* *کوفی اس وقت کے حسین(ع) کو مدد کے لئے بوریاں بھر کے خطوط بھجواتے رہے اور عریضوں کے ڈھیر* اور کھوکھلے العجل کے نعروں سے وقت کے حسین(عج) کے ساتھ پھر دھوکا کرنے کی تیاری! یہ دوغلی روش رکھنے والی بات ہوئی، کچھ عریضوں میں حاجات اور کچھ میں امام کو بلانے کی دعوت.... فارمیلٹی ہی ہوئی نا اپنی زندگیوں میں مگن ایک آدھ دن امام (عج) کو یاد کر کے ہمیں لگتا ہے فرض پورا ھوگیا اور ہم انتظار فرج کی عظیم عبادت میں شامل ہوگئے .کیا ہماری زندگی کا ایک بھی دن ایسا ہے کہ ہم اپنا شمار امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ کے حقیقی منتظرین میں کروائیں؟ لیکن ہم پھر بھی یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ ہم تو ہر وقت عبادت میں ہیں. کونکہ ذکر علی(ع) عبادت، انتظار فرج عبادت، محبت اہل بیت (ع) میں ہر عمل عبادت ہے اور یہ سب تو ہماری زندگی میں ہے ہم مجالس میلاد میں مصروف رهتے ہیں اسے بڑھ کر کیا ہوگا اور... یہ سب رسمی سی ہیں اگر خلوص نہ ہو!!! اور ہماری محافل! افسوس ہم ان محافل میں اول تو کچھ ایسا سننا ہی نہیں چاھتے جس میں کسی عمل یا عبادت کی طرف توجہ دلائی جائے اور اگر سن لیں توبارگاہ مسجد کی دہلیز پر جانا ہی چھوڑ جاتے ہیں. کبھی تبرک پہ لڑتے، کبھی دوسروں کی غیبتیں کرتے ہم بھول ہی جاتے ہیں کے ہم اس مجلس یا میلاد میں کس کا ذکر سن کر آرہے ہیں. اور پارکنگ میں جانے تک یہ بھی بھول جاتے ہیں کے سنا کیا تھا، کوئی پوچھے کیسی رہی مجلس تو جواب ملتا ہے واہ واہ بہت اعلی! اور جب پوچھو کہ کیا بتایا مولانا نے تو جواب ندارد!! کچھ ایسا ہی حال ہے ہماری بقیہ عبادتوں کا جن پے ہم ناز کرتے ہیں. "علی دا ملنگ میں تے علی دا" کر کے سمجھتے ہیں وہ ذکرعلی(ع) کرآئے ہیں جسکو رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ) عبادت کہہ گئے ہیں. اسی طرح العجل کہہ کر ہم انتظار فرج کے فرائض بھی پورے کرچکے ہیں. جو مہدی(عج) ہم نےاپنی مرضی کے مطابق بنا رکھا ہے اگر خدانخواستہ وہ آکر ہماری توقعات پر پورا نہ اترے اور ہماری مرضی کے برعکس کچھ کرنے لگے تو کچھ بعید نہیں کے ہم صفین والوں کی طرح تلوار اٹھا کر کھڑے ہوجائیں کہ مولا یہ آپ غلط کر رہے ہیں ویسا کریں جسے ہم چاھتے ہیں. افسوس کے ہم اسی ہی روش رکھتے ہیں اور ایسا کرنے سی دریغ نہ کریں گے. ایک تو انسان کے دامن میں عمل کے نام پہ کچھ ہو نہ اور پھر وہ اپنے شیعہ ہونے پر فخر و مباہات بھی کرتا پھرےتو پھر خوف ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آخر میں وہ ان پیروکاروں میں شامل ہوجائے جن پے مہدی(عج) سب سے پہلے تلوار چلائیں گے. خدا ہمیں دین و تعجیل امام (عج) کیلئے صحیح معنوں میں امام کا منتظر بنائے اورہمارا خاتمہ خیر پر ہو.
اترك تعليق