سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی کربلاء میں موجودگی

واقعہ عاشوراء کی تفاصیل میں کئی مؤلفین اور برگزار ہونے والے واقعہ کربلاء کے عوامل پر اور اس کے مرتب ہونے والے انقلابی اثرات پر روشنی ڈالی ہے  جن میں سے ایک انتہائی موضوع سیدہ ثانی زہراء سلام اللہ علیہا کی کربلاء مقدسہ میں روز عاشور میں موجودگی کا اہم ترین ذکر ہے ۔

کچھ حضرات نے اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی موجودگی  کو کربلاء مقدسہ میں مد مقابل کو کمزور کرنے کا ایک بہانہ قرار دیا جبکہ دیگر قلم دانوں نے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو انقلاب حسینی کے دنیا پر مرتب ہونے والے اثرات  کا ذریعہ قرار دیا جبکہ دیگر  ہرزہ سراء اقلام نے  ایک صنف نازک و کمزور اور گریہ زن شخصیت کا درجہ دیا۔

جہاں تک حقائق کا تعلق ہے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا کربلاء مقدسہ میں موجود ہوناایک غیر اختیاری و آخری لمحات میں لیا جانا فیصلہ نہیں بلکہ  ان کی بسوئے کربلاء روانگی اس شرط کا نتیجہ تھی جب امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے عبداللہ بن جعفر الطیار  کو وقت ازدواج فرمایا تھا کہ جب وقت رخت سفر آئے تو آپ کی رضا ء ساتھ ہو  اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کی نصرت کے لئے  جاسکیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ  اس سفر کی آمادگی  پہلے سے ہی  تھی۔

اس کے ساتھ ہی اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیدہ سلام اللہ علیہا کا موجود ہونا حضرت امام حسین علیہ السلام  کا آپ کو ساتھ لے جانا  سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ تھی کہ جہا ں رسول کریم اپنی ازواج کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے جنہوں نے متعدد مقامات پر اپنی صبر و رضا  ء سے تمسک سے امت محمدیہ کے لئے مثال قائم کی۔اسی طرح جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے بھی کربلاء اور یوم عاشوراء جیسی اس کٹھن گھڑی میں  امام علیہ السلام کی اس طریقے سے ڈھارس بندھاتی تھیں کہ مقتل کی کتب میں موجود ہے جب بھی اولاد بنی ہاشم میں سے کوئی شہید ہوتا تو امام علیہ السلام شہید کا لاشہ خیمہ بی بی سلا م اللہ علیہا میں لے آتے تھے۔

جس طرح سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے خیام پر حملے کے وقت اولا د رسول علیہم السلام کی حفاظت کی اس سے بڑھ کر آپ نے اہل کوفہ و شام سے خطاب میں اس وقت بنی امیہ کو بے نقاب کیا یہاں تک کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام نے مجمع یزید میں  یزید لعین کو بے نقاب کیا ۔

یہ ایک ایسا دور تھا کہ جس میں عورت ذات کو گھر کی ایک چار دیواری میں محصور کرنا ہی صحیح تصور مانا جاتا تھا اس دور مردی میں جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے مشکل مراحل سے گزر کر یہ ثابت کیا کہ ہر دور اور ہر گھڑی میں عورت ذات بھی مجتمع بشری میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

آخر میں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا  فصاحت و حکمت مرتضوی اور عفت فاطمی  اور تحمل مصائب  حسنی اور  شجاعت حسینی اور وفائے عباس علیہ السلام کا پیکر تھیں

 

توصیف رضا