صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام نماز جمعہ حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبدالمہدی کربلائی کی امامت میں ادا کی گئی جس کے خطاب میں عراقی افواج اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے حاصل کردہ حالیا کامیابیوں اور حویجہ شہر کی آزادی پر مبارک باد پیش کی، اور ان عظیم مجاہدین کو امام حسین علیہ سلام کے حامیوں میں شمار کیا۔ ان خیالات کا اظہار روضہ مبارک حضرت امام حسین(ع) کے متولی شیخ عبدالمہدی کربلائی نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں کیا کہ جو ان کی امامت میں 06 اکتوبر 2017 ( 15 محرم الحرام 1439هـ) کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں ادا کی گئی۔ ابتدائی طور پر ہم اپنی معزز عراقی عوام، مسلح افوج کے بہادر جوانوں اور ان کے معاون گروہوں کو حویجہ شہر اور اس کے ملحقہ علاقوں کی دہشتگردوں کے قبضہ سے آزادی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جو بھی علاقے ان دہشتگردوں کے قبضہ میں باقی ہیں اللہ تعالی کی مدد سے جلد آزاد کروا لیے جائیں گے۔ ہم اپنی افواج کے بہادر سپاہیوں کی مختلف قسم کی قربانیوں پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ہم اپنے عظیم شہیدوں پر فخر کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ان کو شہداء اسلام کے ساتھ محشور کرے اور زخمیوں کو جلد از جلد شفا یابی نصیب کرے۔ عزیز بھائیوں اور بہنوں ایام عاشورہ کا اختتام ہو چکا ہے، اللہ تعالی آپ سب کو اجر عظیم عطا کرے کہ آپ نے سید شہداء کی مجالس عزاء کا انعقاد کیا اور مختلف قسم کی محافلِ حزن اور روایاتی عزاداری میں شرکت کرکے واقعہ کربلا کی یاد کو تازہ کیا۔ یہاں ہمیں اس بات کو یاد رکھنا ہوگا کہ ان مجالس عزاء اور ان روایات کے اختتام پر لازم ہے کہ یہ ہمارے رویوں اور ہمارے طرزعمل پر اثر انداز ہوں، جیسا کہ یہ ایام، یہ موسم تبدیلی اور بدلاؤ زمانہ ہے، اور ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان مجالس عزاء اور ان جلوسوں کو درس گاہوں میں تبدیل کر دیں، کہ جہاں سے ہم بہترین طرز زندگی کے جوہر حاصل کر سکیں، اور ان کی اپنی زندگی میں پابندی کر سکیں۔ ان میں سے بہت سی مجالس میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی سیرت پر بحث کی گئی ہے، جو کہ بہترین اصحاب ہیں. ہمیں ان شخصیات کی سیرت اور ان کے طرز زندگی پر غور کرنا چاپیے، تاکہ ہم ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل سکیں اور اپنی زندگیوں میں عملی طور پر ان کے تمام تر پہلوں کی ترجمانی کر سکیں۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ جب ہم امام حسین علیہ سلام کے اصحاب کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان صحابہ میں پائے جانے والی غیر معمولی خاصیتیں کسی دوسری صحابہ کی جماعت میں نہیں ملتی۔ جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا:میں اپنے اصحاب سے بہتر اور وفادار اصحاب کو نہیں جانتا جیسا کہ میں اپنے گھرسے زیادہ عزت مند اور محترم کسی دوسرے گھر کو نہیں جانتا۔ امام صادق علیہ سلام اپنی زیارت میں امام حسین علیہ سلام کے اصحاب کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ دنیا اور آخرت میں شہیدوں کے سردار ہیں زيارة الناحيہ مقدسہ میں امام العصر والزمان (عجل الله فرجه الشريف﴾ امام حسین علیہ سلام کے اصحاب پر سلام بھیجتے ہوئے فرماتے ہیں: میرا سلام ہو خدا کے بہترین حامیوں پر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سید شہداء امام حسین علیہ السلام کے ان باوفا ساتھیوں کو ان کے اپنے نظریاتی رویے اور روحانی و نفسیاتی اجزاء نے بلند درجات کو حاصل کرنے اور ان صفوں تک پہنچنے کے قابل بنایا کہ جن تک نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی پہنچ سکا۔ ہمیں ان صحابہ کی سیرت کو ایک درس گاہ میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہم دو وجوہات کی بنا پرسیکھتے ہیں سب سے پہلے: ہم تمنا کرتے ہیں کہ ان کے درجہ کی کم سے کم سطح تک پہنچ جائیں۔ دوسرا: ہر وقت اور ہر جگہ، مشکلات اور آزمائش ہیں، اور اگر ہم ان میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری یے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی سیرت سے سیکھیں اور ان کے راستے پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ ہمیں ہر وقت اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ کچھ لوگ ہیں جو میڈیا کی طاقت اور اختیارات سے تجاوزکرت ہوئے اور اپنے آپ کو سچا اور امام حسین علیہ السلام کا پیروکار ظاہر کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، دوسروں کو بیوقوف بنا رہے ہیں تاکہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے رہیں اور ان کی حمایت کریں۔ امام حسین علیہ السلام کے صحابہ اس گمراہ کن سیاست سے واقف تھے اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے دباوٴ اور دھمکی آمیز فضا میں اصحاب امام حسین علیہ السلام نہ صرف دشمن کے کیمپ سے دور تھے بلکہ حق اور سچ کی معرفت رکھتے ہوئے امام کے ساتھ ثابت قدم کھڑے تھے، جو ایسے حالات میں ان کے لئے ایک آسان امتحان نہیں تھا. اللہ تعالی اپنے بندوں کے لئے ایسی آزمائش کرتا ہے جو حقیقی وفاداروں کا دعوی کرنے والوں کی حقیقت کو واضح کر دیتی ہے۔ آئیے ہم امام حسین علیہ السلام کے ان ساتھیوں کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم ان سے کچھ سیکھ سکیں اول: مذہب اور اس کے حقیقی رہنماؤں کے بارے میں آگاہی اور سچ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ثبوت اور دلائل کی بنیادوں پر مذہب کی سچائیوں کے بارے میں تفہیم اور بیداری کا ہونا ضروری ہے، اور ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بھی شخص حق کے اور باطل کے درمیان بغیر کسی شک اور شبہ کے فرق کرسکتا ہے، تو امام حسین علیہ السلام کے اصحاب سی بصیرت کا مالک ہے۔ . دوم: صحیح فیصلہ لینے کے لئے جرأت اور پھر اس پر قائم رہنا ہے سوئم: اللہ کی محبت کی شدت اور اس سے ملنے کی خواہش زیادہ تر وقت اس دنیا کی محبت، پیسے کی محبت، خاندان اور اس دنیا کی کسی بھی خوشحالی کے ساتھ منسلک ہونا حق کی حمایت کرنے کے لئے ضروری پوزیشن لینے سے روکتا ہے کبھی کبھی، کسی شخص کے لیے حق اور باطل میں فرق کی واضح معلومات ہو سکتی ہے، لیکن اس کے دفاع اور اس کی حمایت کرنے کے لۓ صحیح فیصلہ کرنے کی جرات نہیں ہوتی، ذاتی، نفسیاتی اور سماجی دباؤ یا حکمرانوں کا دباؤ ، سب انسان کو کسی بھی قدم کے اٹھانے اور خاص طور پر قربانی کے لیے اٹھائے جانے والے قدم کو مسترد کر سکتا ہے، لیکن ہر قسم کی پریشانیاں اور دباؤ کے باوجود امام حسین (ع) کے ساتھیوں نے ثابت قدمی دکھائی۔ تیسری: اللہ کی محبت کی شدت اور اس سے ملنے کی خواہش زیادہ تر وقت اس دنیا کی محبت، پیسے کی محبت، خاندان اور اس دنیا کی کسی بھی خوشحالی کے ساتھ منسلک ہونا کسی بھی حق امر کی حمایت کرنے سے روکتا ہے، لہذا اللہ تعالی کے لئے ایک مخلص محبت اور اس سے ملنے کی خواہش کا ہونا ضروری ہے روایت میں ہے کہ حضرت زینب﴿س﴾ نے عاشوراء سے پہلے امام حسین علیہ السلام سے کہا: کیا آپ نے اپنے ساتھیوں کو آزمایا؟ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ بھی آپ کا ساتھ چھوڑ نہ دیں، امام (ع) نے جواب دیا، خدا کی قسم، میں نے انہیں آزمایا ہے اور میں نے ان میں صرف ایسے مردوں کو دیکھا ہے جو سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ ثابت قدم ہیں۔ وہ میری خاطر موت کے لیے اس طرح بےچین ہیں کی جس طرح ایک شیرخوار بچہ اپنی ماں کے سینے کے بے چین ہوتا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں، اس وقت ہم ایسے مردوں کو دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے أبا عبدالله الحسين کے ساتھیوں کے راستے پر چلتے ہوئے وطن عزیز کی عزت اور دفاع کے لیے مرجعیت کی آواز پر لبیک کہا ،خدا ان کو اس کا بہترین اجر عطا کرے
اترك تعليق