گزری ہوئی قوموں سے عبرت اور سبق حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے رسولوں کو لوگوں کی اصلاح اور دلائل فراہم کرنے کے لئے بھیجا، نہ کے اپنے ذاتی مفادات کے لیے بلکہ وہ اپنی قوموں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اعلی دینی قیادت کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے متولی علامہ سید احمد صافی نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں کیا جو کہ 13 اکتوبر 2017 (22 محرم 1439هـ) کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں ان کی امامت میں ادا کی گئی۔ انھوں نے فرمایااللہ تعالی اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کی سورہ الفرقان میں ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ: اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انھیں غرق کر دیا اور لوگوں کے لیے نشانی بنا دیا اور ظالموں کے لیے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ﴿37﴾ اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان اور بہت سی جماعتوں کو ہلاک کر دیا (38) اور سب کے سمجھانے کے لیے ہم نے مثالیں بیان کیں اور نہ ماننے پر سب کو تہس نہس کر دیا۔ یہ مقدس آیات ایک اہم موضوع کے بارے میں بات کرتی ہیں اور ہم اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینی طور پر پیغمبراللہ تعالی کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں اور اپنی قوموں کی طرف حق کی نمائندگی کرنے والے ہیں اور غیر حق کے مدعیٰ نہیں ہیں ۔ عام طور پر نبیوں میں ایک خاص صلاحیت اور قابلیت ہوتی ہے، لہذا ان کے الفاظ امت وقت کے لئے بہت واضح ہوتے ہیں، وہ دلیل اور ثبوت کے ساتھ بغیر کسی دوسرے مفاد کے اپنی قوم کی اصلاح اور حق کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہاں ہم امام حسین علیہ السلام کا وہ فرمان ذکر کرتے ہیں جو انھوں نے یزیدی حکومت کے خلاف اپنے قیام کے بارے میں فرمایا خدا کی قسم میں بنی امیہ کی ظالمانہ، خود غرض اور بدعنوان حکومت کے خلاف کسی دباوٴ کے تحت نہیں کھڑا ہوا بلکہ میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح چاہتا ہوں، میں نیک کاموں کی ترغیب اور برائی کو روکنا چاہتا ہوں۔ اور ہم زیارت امام حسین علیہ سلام میں پڑھتے ہیں: سلام ہو آپ پر اے آدم صفی اللہ کے وارث، سلام ہو آپ پر اے نوح نبی اللہ کے وارث، سلام ہو آپ پر اے ابراھیم خلیل اللہ کے وارث، سلام ہو آپ پر اے موسی کلیم اللہ کے وارث...... آپ علیہ سلام نے فرمایا کہ میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں، کیونکہ آپ اپنے نانا اور تمام انبیاء کے وارث ہیں، اور تمام پیغمبر بھی اپنی قوموں کی اصلاح چاہتے تھے۔ اس طرح، ایک عام صورت حال میں، جب ایک اصلاح کار، ایک دانشور شخص، ایک سائنس دان، امام یا ایک پیغمبر لوگوں کے کسی گروہ کی اصلاح یا ان کے سامنے حق ظاہر کرتا ہے، تو انھیں اس کا مثبت جواب دینا چاہیے. لیکن انہوں نے کیوں جواب نہیں دیا؟ جب ہم اس تمام صورت حال کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اصلاحات سے ان کے ذاتی مفاد کو نقصان پہنچتا ہے، اس لیے وہ سچ کو چھپانے کے لیے ان کو جادو گر یا پاگل کہتے ہیں، تاکہ لوگ نہ حق سن سکیں اور نہ دیکھ سکیں۔ حضرت نوح علیہ سلام نے پچاس کم تقریبا ایک ہزار سال زندگی گزاری، اس تمام زندگی میں آپ علیہ سلام اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف ہدایت اور رہنمائی کرتے رہے، اور انھیں عذاب سے ڈراتے اور خبردار کرتے رہے، لیکن انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے رکھی تھیں اور وہ آپ کی بات نہ سن سکے، کہ خدا کے عذاب نے ان کو آ گھیرا ، اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور لوگوں کے لیے نشانی بنا دیا اور ظالموں کے لیے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یاد رکھیں کہ ان لوگوں کے انکار نے ان کے دماغوں کو سوچنے اور غور کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا، اور کمزور لوگوں نے مضبوط اور گمراہ لوگوں کی پیروی کی، کہ جس کی وجہ سے ان کو عذاب الہی نے آ گھیرا۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے لیڈروں کی پیروی کسی جانور کی دم کی طرح کرتے ہیں، اگر وہ ان کو کسی بات پر ایمان لانے کا کہتے ہیں تو وہ ایمان لے آتے ہیں، اگر وہ ان کو کسی کو قتل کرنے کا کہتے ہیں تو وہ قتل کر دیتے ہیں، وہ اپنے آپ کو سخت ذلت کے ساتھ ان کے سامنے جھکائے رکھتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ شیر کی دم اور ایک نفرت انگیز جانور کی دم میں بہت فرق ہوتا ہے۔ تقریبا ایک ہزار سال کی مسلسل رہنمائی اور انتباہ کے بعد عذاب الہی تمام کافروں، سروں اور دموں تک آ پہنچا۔ اور عذاب لوگوں کے لیے سبق اور عبرت ہے، جیسا کہ مقدس آیات فرعون کی لاش کو لوگوں کے لیے عبرت کا نشان قرار دیتی ہیں۔ اور آج ہم تیرے بدن کو بچا لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو، اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں اور اس کےعلاوہ سورہ فرقان کی مندرجہ ذیل آیات بھی " اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور لوگوں کے لیے نشانی بنا دیا اور ظالموں کے لیے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے (37) اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان اور بہت سی جماعتوں کو ہلاک کر دیا (38) اور سب کے سمجھانے کے لیے ہم نے مثالیں بیان کیں اور نہ ماننے پر سب کو تہس نہس کر دیا"۔ جب بات اصلاحات کی ہو تو انسان کو اپنی عقل اور صدائے ضمیر پر عمل پیرا ہونا چاہیئے نہ کہ اپنی مصلحت کو مدنظر رکھے۔ضروری ہے کہ انسان کلام حق کو مدنظر رکھےاور اگر حق سے روگردانی کرے گا تو ناپسندیدہ نتائج برآمد ہونگے کیونکہ عقل کا ہونا ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس سے بہرہ ور ہونا چاہیئے نہ صرف اس سے فقط اپنی مصالح مد نظر رکھی جائیں بلکہ اس کی بدولت اصلاحات بھی لائی جاسکتی ہیں
لہذا، ہمیں اپنے دماغ اور ضمیر کو ہمیشہ متوجہ رکھنا ہو گا، تاکہ ہم سوچ سکیں اور غور کر سکیں، اور خاص طور پر اگر الفاظ کسی دانشور کے ہوں، یا کسی اصلاح کار کے ہوں، جو کے اصلاح اور حق کی خواہش رکھتے ہوں۔ ہم خدا تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کی عزت و ناموس کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اور ہمارے عزیز وطن کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے
اترك تعليق