ایک طویل عرصے تک ۔۔۔داعش کے ترجمان عراق کے موصل جیسے بڑے شہر پر قبضے کے بعد دارالحکومت بغداد میں داخلے کا حتمی اعلان کرتے رہے اور عراق میں پھیلی ہوئی امت مسلمہ کو اپنی خود ساختہ اوصاف میں " صفوی صفوف" میں دراڑ ڈالنے کا وعدہ کرتے رہے اور کربلاء و نجف تک پہنچنے کے لئے قتل و بربریت کی ایسی داستانیں رقم کیں جن میں اہم شہر کاظمین میں اہل تشیع کا ایک بڑا قبر ستان اور اس میں شہداء کی ایک بڑی تعداد مدفون ہے ۔
مگر اس کے بعد وہ تاریخی وقت آیا جب افواج عراق اور اہالیان عراق پر مشتمل خصوصی دستے شہر "آمرلی " کو آزاد کرانے کے لئے نکلے جن کے اہلیان نے داعش جیسی تنظیم کی پوری قوت کا 80 دن تک محاصرے کا دفاع کیا اور اس کے ساتھ ساتھ کربلاء کے نواحی علاقے "جرف الصخر " اور ایران کے حدودی علاقے "دیالی" اور صوبہ صلاح الدین یہاں تک کہ داعش آہستہ آہستہ نے ان علاقوں پر سے کنٹرول کھونا شروع کر دیا وہ تنظیم جو ایک وقت میں اپنے زور بازو سے لڑتی تھی مگر اس کا کربلاء و نجف کا خواب ایک خواب ہی رہ گیا ۔
جہاں تک عراق کے وزیر دفاع اور حکومتی ذرائع اور مبصرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ داعش کا نفوذ عراق کی سرزمین پر 40فیصد سے 17 فیصد ہے اور اس کی کمزوری کو چھپانے کے لئے انہوں نے نئے ہتھکنڈے کہ جن میں وسائل اعلام کو ذریعہ بنایا ہے اور نت نئے طریقے سے بربریت و قتل و عام کے طریقوں کو متعارف کروایا مگر بھی بین الاقوامی ذرائع کے مطابق تنظیم کے زیر تسلط علاقوں میں غیر معمولی کمی آئی ہے اور اس کی مالی امدادات میں غیر معمولی کمی بھی حال میں ہونے والے فضائی حملے کہ جنہوں نے اس کی تیل کی پیداوار پر کاری ضرب لگائی ہے اور اس کی معنویات پر ایک کاری ضرب چہلم اور عاشور کے ایا م میں عراقی علاقات کا پرامن رہنا ہے ۔
اترك تعليق