امام علی ابن ابی طالبؑ کی شخصیت اسلام کی تاریخ میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ آپؑ رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی، داماد، اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے نوجوان تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر امام علیؑ کے مقام و مرتبے کو واضح کیا، جیسے کہ حدیثِ غدیر میں فرمایا: "من کنت مولاہ، فهذا علی مولاہ" (جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی بھی مولا ہے)۔
امام علیؑ کی شجاعت، علم، عدل و انصاف، اور زہد کو اسلامی تاریخ میں ایک مثالی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ آپؑ کی خلافت کا دور کئی داخلی اور خارجی سازشوں کا شکار رہا، مگر آپؑ نے ہمیشہ عدل و انصاف اور اسلامی اصولوں کو مقدم رکھا۔ مگر بدقسمتی سے 19 رمضان 40 ہجری کو ایک المناک واقعہ پیش آیا، جو اسلامی تاریخ میں ایک بڑا سانحہ ثابت ہوا۔
19 رمضان المبارک، فجر کی نماز
کوفہ کے سیاسی و سماجی حالات
امام علیؑ کی خلافت کے دوران کوفہ دارالخلافہ تھا، مگر خوارج اور بنی امیہ کی طرف سے مسلسل سازشیں جاری تھیں۔ خاص طور پر خوارج، جو جنگِ نہروان کے بعد امام علیؑ کے دشمن ہو گئے تھے، آپؑ کو قتل کرنے کی سازش میں مصروف تھے۔ عبدالرحمٰن ابنِ ملجم، جو خوارج کے ایک گروہ کا رکن تھا، اس سازش میں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔
ابن ملجم کی سازش
ابنِ ملجم اور اس کے ساتھیوں نے طے کیا کہ وہ امام علیؑ، امیر معاویہ اور عمرو بن العاص کو ایک ہی وقت میں قتل کریں گے تاکہ خلافت کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ چنانچہ ابنِ ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار تیار کی اور 19 رمضان کی فجر کے وقت مسجد کوفہ میں چھپ کر امام علیؑ کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔
حملہ اور امام علیؑ کے الفاظ
جیسے ہی امام علیؑ نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوئے اور سجدے میں گئے، ابنِ ملجم نے پوری طاقت سے تلوار کا وار کیا، جو امام علیؑ کے سر پر لگا۔ حملہ ہوتے ہی امام علیؑ نے فرمایا:
"فزتُ وربِّ الکعبہ" (ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا)۔
مسجد کوفہ میں نمازی حیران اور پریشان ہوگئے۔ ہر طرف شور برپا ہو گیا اور امام علیؑ زخمی حالت میں زمین پر گر پڑے۔
زخمی ہونے کے بعد کے حالات
امام علیؑ کو گھر لے جانا
امام علیؑ کو فوراً گھر لے جایا گیا۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ ان کے پاس پہنچے اور روتے ہوئے پوچھا: "بابا! آپؑ کی حالت کیسی ہے؟" امام علیؑ نے نرمی سے فرمایا:
"بیٹا! میں اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں۔ لیکن یاد رکھنا، ہمیشہ عدل و انصاف کے ساتھ رہنا اور ظلم کے خلاف ڈٹے رہنا۔"
طبیبوں کا معائنہ
کوفہ کے بہترین طبیبوں کو بلایا گیا۔ جب امام علیؑ کے زخم کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ زہر جسم میں سرایت کر چکا ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں۔
20 رمضان المبارک
امام علیؑ کی آخری نصیحتیں
20 رمضان کو امام علیؑ کی حالت مزید خراب ہو گئی۔ آپؑ نے اپنی اولاد اور اہلِ خانہ کو نصیحتیں کیں، جن میں تقویٰ، حق پرستی، اور مظلوموں کی مدد کا ذکر کیا گیا۔
امام علیؑ کی آخری وصیت:
اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو۔یتیموں اور مساکین کا خیال رکھو۔ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے ساتھ رہو۔ابنِ ملجم کے بارے میں حکم
امام علیؑ نے فرمایا: "اگر میں زندہ رہا تو خود فیصلہ کروں گا، لیکن اگر میں دنیا سے چلا گیا تو اسے قصاص میں قتل کر دینا، مگر زیادتی نہ کرنا۔"
شہادتِ امام علیؑ: 21 رمضان
21 رمضان المبارک کی سحر کے وقت، امام علیؑ کی حالت مزید بگڑ چکی تھی۔ جیسے ہی فجر کی اذان ہوئی، آپؑ نے آخری بار اللہ کا ذکر کیا، اور آپؑ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
اہلِ بیتؑ اور اصحاب غم سے نڈھال ہو گئے۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ نے والد کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا۔
تدفینِ امام علیؑ
امام علیؑ کو رات کے اندھیرے میں نجف اشرف میں دفن کیا گیا تاکہ دشمن قبر کی بے حرمتی نہ کر سکیں۔ ابتدائی طور پر قبر کا مقام خفیہ رکھا گیا، جو بعد میں ظاہر ہوا۔
قاتل ابنِ ملجم کا انجام
ابنِ ملجم کو گرفتار کر لیا گیا۔ جب اس کے سامنے امام حسنؑ آئے تو وہ شرمندہ نہیں ہوا، بلکہ بولا: "میں نے امام علیؑ کو قتل کر دیا، میں نے اپنا کام مکمل کر لیا۔"
چنانچہ امام علیؑ کے حکم کے مطابق، قصاص میں اسے قتل کر دیا گیا۔
امام علیؑ کی شخصیت پر سنی مؤرخین کا نقطہ نظر
سنی مورخین امام علیؑ کو "باب العلم" اور عدل و انصاف کا پیکر سمجھتے ہیں۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابنِ کثیر اور دیگر علماء نے امام علیؑ کی فضیلت کا ذکر کیا ہے۔
شیعہ نقطہ نظر سے امام علیؑ کی فضیلت و مظلومیت
شیعہ روایات میں امام علیؑ کی شہادت کو اسلام کی سب سے بڑی مظلومیت قرار دیا گیا ہے۔ نہج البلاغہ، بحار الانوار اور دیگر کتب میں امام علیؑ کی قربانیوں کا ذکر ملتا ہے۔
شہادت کے بعد امت مسلمہ پر اثرات
خلافت راشدہ کا خاتمہ ہوا۔بنی امیہ کو اقتدار کا راستہ ملا۔کربلا کا واقعہ رونما ہونے کی بنیاد پڑی۔نتیجہ اور سبق
امام علیؑ کی زندگی ہمیں حق پر ڈٹے رہنے، عدل و انصاف کا قیام، اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا سبق دیتی ہے۔