نہر علقمی کے تاریخی ادوار

علقمی

اس لفظ اور نام کا تاریخی لحاظ سے بہت زیادہ اثر رہاہے کیونکہ اس اسم کے ساتھ شجاعت ، فدائیت اور ایثار کی وہ داستاں جڑی ہے جسکا پیکر حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام ہیں جنہوں نے خود کو کنارہ علقمہ پر فداکیا اور آپ کی شہادت کی تاریخ نے اس 'علقمی' کو خلد کیا ۔

نھر علقمہ

اس نہر کا ذکر واقعہ کربلاء مقدسہ کی ان تمام تاریخی کتب و جغرافیائی مصادر میں ملتا ہے چاہے وہ قدیمی ہوں یا جدید ۔ اور مؤرخین و مؤلفین کے اس نھر کی کھدائی اور نامگذاری کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔

اگر تاریخ سے رجوع کریں تو اس نھر کے بارے میں کافی حد تک مختلف اسماء ملتے ہیں جس میں اس نھر کی جغرافیات کئی مراحل سے گزری ۔ السید محمد حسن مصطفیٰ آل طعمہ اپنی کتاب مدینہ الحسین میں لکھتے ہیں کہ اس نھر سے مختلف ادوار میں آگے کئی نھریں نکالی گئیں جس کی وجہ سے اس کے مختلف اسماء تاریخ میں ملتے ہیں جس کا سبب مختلف ادوار میں جغرافیائی تبدیلی ہے ۔

جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نھر کی تاریخ بھی شہروں اور بستیوں کی مانند تبدیل ہوتی رہی ہے جس پر ایک دلالت علامہ محقق شیخ مجید الھرمن نے نقل کیا ہے کہ دوسرے دور بادشاہت بنی بویہ جنہوں نے 951-983ء تک حکمرانی کی اس نھر کا وجود تھا لیکن اس وقت اس نھر کے جادہ میں ریت اور مٹی اتنی کثرت تھی کہ بادشاہ نے اس کی کھدائی اور تنظیف حکم دیا یہاں تک کہ اپنی پہلے حالت میں آگئی یہاں تک بادشاہ کی دلچسپی کو دیکھ کر ایک منشی نے کہا کہ اس کا نام بدل کر اپنے نام پر رکھ دو لیکن اس نے انکار کیا اور کہا کہ نہیں بلکہ یہ اپنے قدیمی نام علقمی پر برقرار رہے گی ۔

یہ واقعہ اس بات پر دلیل ہے کہ اس نے صفائی و ستھرائی کے ساتھ ساتھ اسی نام 'علقمی' کے ساتھ مشہور تھی ۔

ایک واقعہ اس طرح بھی نقل ہے کہ اس نھر کا نام بنی تمیم میں سے ایک شخص نے رکھا کہ جس کے دادا کا نام علقمہ تھا ۔ السید عبدالرزاق المقرم نے بھی ایسے اقوال کو رد کیا ہے کہ جس شخص نے تسمیت کی وہ بنی تمیم سے تعلق رکھتا ہو اور اپنے دادا کے نام پر تسمیت جسکانام علقمی بن زرارہ ہو جو کہ اسدی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جو کہ اس کی سچائی پر سوالیہ نشان ہیں ۔

فرات

جن مصادر اور تاریخی کتب نے اس نھر کا ذکر کیا ہے ان میں اس کا نام فرات بھی ہے اور اس کے نام کی وجہ بھی بتائی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تاریخی وجود وہی ہے جو کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے خطبہ میں فرمایا ہے : میں اس کا بیٹا ہوں جسے کنارہ فرات پر ذبح کیا گیا ، اور حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس نے آب فرات سے غسل کیا اور زیارت امام حسین علیہ السلام کی ۔۔۔۔۔۔ الخ

اور امام صادق علیہ السلام سے ہی قول ہے کہ جب قبر حسین علیہ السلام کے لئے آؤ تو فرات پرآؤ اور غسل کرو

اور امام صادق علیہ السلام علیہ السلام کا قول ہے کہ جس نے فرات کے پانی سے غسل کیا تو ایسے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے آج پیدا ہوا

یہ روایت اس بات پر دلیل ہیں کہ نھر کا ان اسماء کے ساتھ وجود تھا اور انہی ناموں میں سے ایک نام فرات ہے کیونکہ یہ دریائے فرات سے مشتق تھی اور مقتل کی کتب میں یہ روایت ہے کہ جب جناب حربن یزید الریاحی نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکا تو اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اس جگہ اتریں کہ فرات بھی آپ کے قریب ہے ۔

اور زھیر بن القین نے امام حسین علیہ السلام سے کہا کہ ہمیں سمجھائیں تاکہ ہم کربلاء کی زیارت کرسکیں کیونکہ یہ فرات کے کنارے پر ہے ۔

اورجب حضرت امام حسین علیہ السلام نے زمین کا نام پوچھا تو ان میں سے ایک نام کنارہ فرات بھی تھا ۔

اور کثیر روایات میں یہ ملتا ہے کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام کربلاء مقدسہ میں پہنچے تو اس وقت اس کا نام نھر فرات تھا۔

العلقمی

کچھ روایات میں اس نھر کا نام علقمی بھی وارد ہے کہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے : ابھی تک جاری ہو؟ اے علقمی ۔ اور میرے اجداد کو تم سے محروم کیا گیا ۔

اور دوسری جگہ شیخ مفید زیارت سرکار وفاء حضرت عباس علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب پل علقمی پر پہنچو ۔

اور ایک اور جگہ جناب ہاشم بحرانی نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص کی روایت میں جس میں وہ واقعہ کربلاء کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ میں دریائے علقمی پر کاشتکار تھا ۔

اور ایک روایت میں اب شھر آشوب مازندرانی نقل کرتے ہیں کہ جب متوکل نے قبر حضرت امام حسین علیہ السلام کو منہدم کرنےکے بعد حکم دیاکہ اس پر کاشتکاری کریں اور نھر علقمہ کا پانی بہائیں ۔

سید عبدالرزاق المقرم ان روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روایت میں لفظ علقمی کا ذکر آیا ہے یہ اہل علم کے زبانی اقوال نہیں بلکہ جس بات کی تحقیق کر لیتے ہیں تبھی اس کا ذکر کرتے ہیں اسی لئے یہ نام بھی ساتویں صدی عیسوی سے قبل تھا ۔

 

پروفیسر عبد الحسین الرحیم تائیداً کہتے ہیں کہ معقولیت کے قریب ترین روایات میں سے ایک روایت یہ ہے کہ دریا کے دونوں کناروں پر چکنائی والے پھل پائے جاتے تھے جنہیں عرفی زبان میں علقم کہتے ہیں جس کی وجہ سے اس نہر کا نام اس کے خوش مٹھاس اور سرددل کرنے کی وجہ سے شہرت پاگیا ۔