ولاء حسینی اور انتظار مہدوی زیارت چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کے اہم اجزاء

13صفر 1439ھ (3نومبر 2017ء) کو نماز جمعہ حرم مقدس حسینی کے متولی شیخ عبدالمہدی کربلائی کی امامت میں  صحن حسینی میں ادا کی گئی اور نماز جمعہ کے خطبہ میں چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے بعض اہم نکات پر روشنی ڈالی ۔

اول: حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر اقدس کی زیارت اور  زیارت ضریح مقدس  کے لیے لاکھوں  عاشقانِ حسینی پیدل کربلا آ رہے ہیں ہم ان تمام زائرین کو خوش آمدید کہتے ہیں اور بے شک اس کامیابی کے پیچھے  زائرین، اہل موکب، سیکورٹی اہلکاروں، طبی عملے، مقامی حکومتوں خاص طور پر کربلا اور نجف کے سرکاری اداروںزمینی اور فضائی حدود  پر مامور حکومتی عملہ اور تمام مقامات مقدسہ میں خدمت و تسہیل زائرین کے لئے موجود احباب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس عظیم زیارت کے احیاء اور کامیابی کے لیے تعاون کیا ۔اللہ تعالی زائرین کی زیارت کو قبول کرے اور جس نے بھی اس مبارک و عظیم زیارت کی کامیابی و احیاء میں حصہ لیا ہے اس کے اعمال کو قبول فرمائے۔

دوم: زائر چہلم  بین ولاء حسینی اور انتظار مہدوی۔۔ کیسے زیارت چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذریعے  انقلاب حسینی اور انتظار مہدوی کے اصولوں پر قائم رہا جاسکتا ہے؟ زیارت اربعین  کے بنیادی اصولوں کے ذریعے کس طرح ہم حضرت  امام حسین(علیہ السلام)  سے صدق ولاء  اور امام زمانہ(عجل اللہ تعالیٰ) سے ارتباط کو یکجا کو سکتے ہیں؟ اس وقت ہم امام مہدی(ع) کے انتظار کے زمانہ میں ہیں اور ہمارے پاس دو چیزیں ہیں  مومن حسینی اور مہدوی۔  کیا ہم زیارت اربعین کے ذریعے ان دونوں کو اکٹھا اور یکجان کر سکتے ہیں کہ جن میں سے ایک امام حسین(ع) کی سچی محبت ہے اور دوسرا امام مہدی(ع) کا حقیقی انتظار۔ واضح رہے کہ امام حسین(ع) کے زائر اور اہل بیت(ع) کے سچے شیعہ ہونے میں فرق ہے لہذا زیارت اربعین کے ذریعے زائر کس طرح امام حسین(ع) سے اپنی سچی محبت اور امام مہدی(ع) کے سچے انتظار کو اکٹھا کرے؟ ایک سچا انتظار ہوتا ہے اور ایک جھوٹا انتظار بھی ہوتا ہے

سوم:

اللہ تعالی کے نزدیک امام مہدی کے انتظار کی قدر وقیمت اور مرتبہ کیا ہے؟

ہمارے پاس اس سلسلہ میں بہت سی احادیث موجود ہیں ہمارے لیے ان میں غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے ایک حدیث میں مذکور ہے: (أفضل عبادة المؤمن انتظار فرج الله) مومن کی سب سے افضل عبادت اللہ کی طرف سے کشائش (ظہور امام) کا انتظار ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (من مات منكم وهو منتظر لهذا الأمر كمن هو مع القائم في فسطاطه). جو بھی اس امر (ظہور امام) کا انتظار کرتے ہوئے مر جائے وہ ایسے ہی جیسے وہ ان (امام مہدی) کے ساتھ ان کے خیمے میں کھڑا ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تحقیق کریں کہ ہم سے کس مرتبہ کا انتظار مطلوب ہے تاکہ ہم مذکورہ احادیث میں مذکور درجہ کو حاصل کر سکیں؟ اگر ہم ان احادیث میں غور کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا ان درجات کا مستحق مومن وہ ہے جو باعمل ہو، امام مہدی کے ساتھ مخلص ہو، حقیقی سچا انتظار کر رہا ہو، ظہور کے لیے مکمل تیار ہو کہ جیسے ہی ظہور ہو میڈیا وار کے تمام تر حملوں کے باوجود وہ فورا اپنے امام سے جا ملے۔  امام حسین(ع) سے سچی محبت اور امام مہدی(ع) کے حقیقی انتظار کے لیے چند امور کا موجود ہونا ضروری ہے ان میں سے چند کا ہم ذکر کرتے ہیں: 1:- امام حسین(ع) اور امام مہدی(ع) کے اصولوں کے ایک ہونے کا شعور ظلم، فتنہ و فساد اور ہر طرح کے انحرافات کے پھیل جانے کے بعد امام حسین(ع) نے اپنے نانا کے امت کی اصلاح کی خاطر قیام فرمایا اور امام مہدی(ع) کا قیام بھی زمین کو عدل و اصاف سے بھرنے کے لیے ہو گا جبکہ وہ ظلم وستم سے بھر چکی ہو گی۔ اربعین امام حسین(ع) کے موقع پر زیارت کے لیے پیدل آنے والا بھی سفر کی مشقت اور تکالیف کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے برداشت کرتا ہے اور وہ اپنے اس عہد و پیمان اور ولاء کی تجدید کر رہا ہوتا ہے کہ امام حسین(ع) کے انقلاب کے اصولوں کو باقی رکھنے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم رہے گا، جبکہ امام مہدی(ع) بھی خدا کی طرف سے ظہور کی اجازت کے منتظر ہیں تاکہ امام حسین(ع) کے ہدف کو پورا کر سکیں، اور یہی چیز ظہور کے اشتیاق کو پیدا کرتی ہے، امام مہدی کے ساتھ ارتباط کو مضبوط کرتی ہے۔ امام حسین(ع) کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہمارا سفر کسی کی قیادت میں ہونا چاہیے اور اس موجودہ زمانے میں وہ قیادت امام مہدی(ع) اور ان کی نیابت کے فرائض ادا کرنے والے عادل فقہاء کی صورت میں موجود ہے۔ 2:- امام حسین(ع) کو زیارت اربعین کے بعد بھی یاد رکھنا میرے بھائیوں جب زیارت اربعین ختم ہو جائے گی تو پھر بھی آپ امام حسین(ع) کو یاد رکھیں، بہت سے ایسے اذکار اور زیارات ہیں جو ہمیں امام حسین(ع) کی یاد دلاتی ہیں اور خاص طور پر زیارت عاشوراء۔ یاد رکھیں زیارت عاشوراء میں بہت سے ایسے اصولوں کا ذکر ہے جو امام حسین(ع) سے ولاء اور محبت کی بنیاد ہیں مثال کے طور پر زیارت عاشوراء میں ہے: (اني سلم لمن سالمكم وحرب لمن حاربكم وولي لمن والاكم وعدو لمن عاداكم) میری آپ سے صلح کرنے والے کے ساتھ صلح، آپ سے جنگ کرنے والے کے ساتھ جنگ، آپ سے دوستی کرنے والے کے ساتھ دوستی، اور آپ سے دشمنی کرنے والے کے ساتھ دشمنی ہے۔ جو زائر حسینی اور مہدوی بننا چاہتا ہے اسے زیارت عاشوراء کے ساتھ ساتھ دعائے عہد کو بھی پڑھنا چاہیے۔ دعا عہد امام مہدی کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ ہے اس دعا میں ہے: (اللهم إني اجدد له في صبيحة يومي هذا عهداً وعقداً وبيعةً له في عنقي لا أحول عنها ولا أزول ابداً) اے اللہ میں آج کے اس دن کی صبح اپنے (امام مہدی کے ساتھ) عہد و پیمان اور اپنی گردن میں موجود بیعت کی تجدید کرتا ہوں میں نہ تو کبھی اسے بدلوں گا اور نہ ہی کبھی اس سے پیچھے ہٹوں گا۔ زائر کے ذمہ دو عہد و پیمان ہیں ایک امام حسین(ع) کے ساتھ کہ جو زیارت عاشوراء میں مذکور ہے اور دوسرا امام مہدی(ع) کے ساتھ کہ جو دعائے عہد میں مذکور ہے۔ یہ چيز زائر سے امام مہدی(ع) کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے کے لیے تیار رہنے کا تقاضہ کرتی ہے، امام مہدی کا ظہور و قیام انقلاب حسینی کی ہی سلسلہ وار کڑی ہے۔ بعض عبادتی کاموں کے لیے ہمیں زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی، ہمارے پاس روزانہ چند گھنٹے یا چند منٹ ایسے بھی ہونے چاہیے کہ جن میں ہم زیارت عاشوراء کے ذریعے امام حسین(ع) سے اور دعائے عہد کے ذریعے امام مہدی کے ساتھ رابطہ قائم کر سکیں۔ اگر غور و فکر کیا جائے اس زیارت کے تمام اجزاء اور مفردات امام مہدی(ع) کے ساتھ تجدیدِ عہد ہیں، تاکہ امام کے ظہور کا منتظر مومن امام زمانہ کی مدد اور ان کا ساتھ دینے کی تیاری کی تجدید کر سکے۔ اور یہ چیز پرہیزگار بننے، شرعی واجبات ادا کرنے، محرمات سے بچنے اور عدل وانصاف کے پھیلانے اور ظالموں کے خلاف قیام کرنے والوں کا ساتھ دینے سے ممکن ہے۔  یہ تمام امور امام مہدی(ع) کی نصرت و تائید کی تیاری کو ثابت کرتے ہیں اور یہ زیارت اربعین ہمیں امام حسین(ع) کے اصولوں کو مجسم صورت فراہم کرنے اور بلند اخلاق اپنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔  اللہ سے دعا ہے وہ ہمیں حسینی و مہدوی بننے کی توفیق عطا کرے اللہ ہمیں امام مہدی(ع) کے انصار و اعوان میں سے قرار دے۔